Абай Құнанбаевтың" Қара сөздері" УРДУ тілінде

Абай Құнанбаевтың" Қара сөздері" УРДУ тілінде

الفاظ کی کتاب

فہرست

پہلا لفظ

خالق نے ہمیں کتنی خوبصورت دنیا عطا کی ہے

اس نے دل کھول کر ہمیں اپنا نور بخشا

جب زمین اپنی سینے سے ہمیں کھلاتی ہے

تو جنت میں باپ ہماری سوچ میں مائل ہوتا ہے

کے  نظم بہار سے اقتباس ABAI KUNANBAEV

چاہے اچھے ہوں یا برے ، میں نے اپنی زندگی بسر کی۔  جدوجہد اور جھگڑوں ، تنازعات اور دلیلوں، تکالیف اور اضطراب سے بھرپور زندگی  کا سفر طے کرتے ہوے زندگی کے ڈور کے آخری سرے پر تھک ہار کر پہنچ گیا۔  مجھے اپنے کام  کی اور  اپنے وجود بے معنی ہونے  کا احساس ہو گیا ہے۔اب میں کیسے خود کو مصروف رکھوں، کیسے اپنی زندگی کے باقی دن گزاروں۔

 اب میں اپنے آپ کو کس چیز پر قابو کروں اور میں اپنے باقی دنوں میں کیسے زندہ رہوں؟  حیران ہوں کہ مجھے اس سوال کا کوئی جواب نہیں مل سکا۔

عوام پر حکمرانی؟ نہیں، لوگوں پے حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔یہ بوجھ کسی ایسے بندے کے کندھے پے ہونا چاہیے جو اس لاعلاج بیماری کے ساتھ امعا ہدہ کرنے کو تیار ہو یا پھر کوئی پرجوش نوجوان۔

 لیکن اللہ مجھے اس بوجھ سے بچائے جو میری طاقت سے باہر ہے۔ کیا میں مال مویشی پالوں؟   نہیں، میں یہ نہیں کر سکتا۔ نوجوان مویشی پالیں اگر ان کو ضرورت ہو تو۔ لیکن میں اپنی زندگی کی شامیں مویشی پال کے،  باغیوں اور  چور اچکھوں کو خوش کر کے تاریک نہیں کر سکتا۔

خود کو سیکھنے میں مصروف کروں؟  لیکن ایسے بھی کیسے کروں جب کہ میرے پاس کوئی ایساشخص نہیں جس کے ساتھ دانشورانہ باتیں کی جائیں۔اور پھر اپنا جمع کیا ہوا علم کس کے ساتھ بانٹوں؟ میں کس سے پوچھوں گا جو مجھے نہیں معلوم؟  ویران جگہ،آرشین   (پیمائش کا آلہ)لے کے کپڑا بیچنے کا کیا فائدہ؟   اگر آپ کے ساتھ کوئی بھی شخص اپنی خوشی اور دکھ بانٹنے کے لیے نہیں تو زیادہ علم بڑھاپے کا باعث بنتا ہے۔

صوفی کا راستہ اختیار کرکے  اپنے آپ کو دین کے لیے وقف کردوں؟  نہیں، مجھے ڈر ہے کہیہکامبھی میرے لیے  نہیں۔ اس کام میں ٹہراؤ  اور مکمل ذہنی سکون کا چاہیے۔لیکن مجھے اپنی روح اور زندگی میں سکون سے آشنائی نہیں ہوئی۔ اور اس زمین کے لوگ کیسے متقی ہوسکتے ہیں؟  شائد بچوں کو پڑھا کے۔  نہیں، یہ بھی میرے اختیار سے بالاتر ہے۔میں بچوں کو تعلیم دے سکتا ہوں، یہ سچ ہے،  لیکن مجھیمعلوم  نہیں کہ میں انہیں کیا تعلیم دوں اور کیسے۔

کس پیشے کے لیے، کس مقصد اور کس طبقے کے لیے میں انہیں تعلیم دوں؟  میں اپنے شاگردوں کو کیسے راہ دکھاسکتا ہوں جبکہ مجھے خود معلوم نہیں کہ وہ اس علم کاصحیح استعمال کہاں کریں گے۔   اور اس طرح یہاں بھی، میں خود کو مفید بنانے سے قاصر ہوں۔

ٹھیک ہے، میں نے آخر کار فیصلہ کر لیا ہے کہ اس کے بعدصرف قلم اور کاغذ ہی میری تنہائی میں راحت کا ذریعہ ہو گا،  اوراسطرح میں اپنے خیالات کا  اظہار کروں  گا۔ اگر کسی کو یہاں سے کوئی مفید چیز مل جائے تو اپنے پاس لکھ لے یا حفظ کرلیں۔ اور اگر کسی کو میری باتوں کی ضرورت نہیں ہے تو، وہ ویسے بھی میرے ساتھ رہیں گے۔ اور اب مجھے اس کے سوا کوئی اور سروکار نہیں ہے۔

دوسرا لفظ

میرے بچپن میں میں ازبک کو قازقستان کا مزاق اڑاتے ہوئے سنا کرتا تھا:

آپ چوغہ سے شروع کرتے ہیں، آپ اپنی چھتوں کو ڈھانپنے کیلئے بہت دور سے سوکھی گھاس لاتے ہیں۔! آپ  جھک کے ملتے ہیں سب سے   لیکن آپ پیٹھ  پیجھے ان کی توہین کرتے ہیں۔ آپ ہر جھاڑی سے ڈرتے ہیں، آپ بغیر رکے باتیں کرتے جاتے ہیں،  اوراسی لیے آپ کو سارٹ سارٹسکہتے ہیں۔

قزق بھی نوگیس کو ڈانٹتے اور انکا مزا ق اڑاتے۔

 نوگئی اونٹ سے ڈرتا ہے، گھوڑے پے بھی تھک جاتا ہے اور چلتے چلتے بھی آرام کرتا ہے۔  بھگوڑے،   سپاہی اور تاجر سبھی نوگیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کو نوگیس نہیں   نوکیس کہنا چاہیے۔

 روسیوں کے بارے میں وہ کہتے تھے:  سرخ بالوں والے جب جاسوسی کرتا ہے تو اجو اس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے۔، ساری  باتیں اور قصے سنتے ھیں اور ہر بات پر یقین کرتے ہیں۔میرے خدایا! میں نے  فخر کے ساتھ سوچا۔  کہ پوری دنیا میں قازقستان جیسے  قابل اور نیک آدمی نہیں ہے! اس طرح کی گفتگو میری  خوشی اور تفریح کا باعث بنی۔ لیکن  میں ا ب یہ دیکھ رہا ہوں: ایسا کوئی پودا نہیں ہے جو سارٹ نے نا اگایا ہو، ایسی سر زمین نہیں ہے جہاں اسکے  تاجروں نے دورہ نہیں کیا ہو، اور ایسی کوئیبھی چیز نہیں جو  ان کے انگلیوں نے نا بنائی ہو.۔ ان کے عام لوگ سکون سے رہتے ہیں اور کوئی دشمنی نہیں چاہتے ہیں۔روسی تاجر کی موجودگی سے قبل، سارٹ  قزق کو کپڑا اور مرنے والوں کی  تدفین کیلیے کفن مہیا کرتے تھے  اور جن مویشیوں پکی تقسیم پہ قزق باپ بیٹے آ پس میں راضی نہیں ہوتے وہ بھی خرید لیتے ۔  اب روسیوں کے ما تحت، سارٹس نیجدت  کو دوسرں کی نسبت زیادہ تیزی سے اپنایا۔معززین اور پڑھے لکھے ملاّ۔  میں نوگیس کی طرف سے دیکھتا ہوں کہ وہ عمدہ سپاہی بن سکتے ہیں اور محرومی برداشت کرسکتے ہیں۔

یہ عاجزی کے ساتھ موت کا سامنا کرتے ہیں، اسکولوں کی حفاظت کرتے ہیں  اور مذہب کی عزت کرتے ہیں۔وہ محنت کرکے  امیر بننا اور تیار ہو کے لظف اندوز ہونا جانتے ہیں۔

  مگرہم قزق نہیں،: ہم اپنی روٹی روزی کیلیے ان کے معززین کیلیے مزدوری کرتے ہیں۔ وہ ہمارے معززین کو اداخل نہیں ہونے دیتے۔  وہ کہتے ہیں،  اے قزق!  ہمارا فرش آپ کے گندے جوتوں کے چلنے  کیلئے نہیں۔  میں روسیوں کی بات نہیں کروں گا۔ ہم ان کے خادموں تک کو موم بتیاں نہیں رکھ سکتے۔ ہماری ساری خوشیاں کہاں گئی؟

ہمارے کہکہے کہاں ہے؟

 

تیسرا لفظ

قازقستان میں ایک دوسرے سے اجنبیت، دشمنی اور بدامنی کی کیا وجہ ہے؟ وہ اپنی باتوں میں جھوٹیکیوں ہیں، اتنے کاہل اور طاقت کے ہوس میں ہیں۔

 اس دنیا کے دانشمندوں نے بہت پہلے مشاہدہ کیا ہے: قاعدے  کے مطابق، ایک سست شخص،بزدل اور گھمنڈ والا ہوتا ہے۔    شیخی باز بزدل احمق اور جاہل ہوتا ہے۔ایک جاہل کو عزت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے۔جبکہ ایک بے ایمان شخص سست روی پہ گزارا کرتا ہے۔  وہ بے چین، بے لگام اور نقصان دہ ہوتا ہے۔   وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے کوئی اچھی خواہش نہیں رکھتا۔

ان پریشانیوں کی وجہ صرف اور صرف ایک چیز کے ساتھ لوگوں کی دلچسپی ہے:  زیادہ سے زیادہ مویشیوں کی ملکیت اور اس طرح عزت اور احترام حاصل کرنا۔  اگر وہ کاشتکاری یا تجارت کرتے،  سیکھنے اور فن میں دلچسپی لیتے،  تو یہ کبھی نہیں ہوتا۔ والدین اپنے ریوڑ میں اضافہ کیساتھ اس بات کی کوشش کرتے کہ ان کے بچوں کے ریوڑ اور بھی بڑے ہوں۔  تاکہ مویشیوں کو چرواہوں کی دیکھ بھال میں چھوڑ  کے   وہ آرام کی زندگی میں گزار سکیں۔  گوشت اور کوسمیس کھائیں،  خوبصورت خواتین اور تیز گھوڑں سے لطف اندوز ہوں۔   آخر کار، ان کی سردیوں کی چراگاہیں بہت چھوٹی ہو جاتی ہیں اور اپنے اثرورسوخ یا مقام کو استعمال کرتے ہوئے  وہ کسی بھی پڑوسی سے ان کی چراہ گاہیں خرید لیں گے یا قبضہ کر لیں گے۔  وہ شخص،  بدلے میں کسی دوسرے پڑوسی پر دباؤ ڈالے گا،  نہیں تو اسے اپنا  ابائی علاقہ چھوڑنا پڑے گا۔ اب، کیا یہ لوگ ممکنہ طور پر ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوسکتے ہیں؟ جتنے غریب ہونگے  اتنی ہی ان کی مزدوری بھی سستی ہے۔ جتنے زیادہ مفلس اور بے سہارا لوگ،  اتنی ہی زیادہ مفت چرا ہ گا ہیں۔ میرا پڑوسی میری بربادی کا  بے چین ہے، اور میں اس کے عذاب میں پڑنے کیلئے بے تاب ہوں۔

 آہستہ آہستہ ہماری پوشیدہنفرت  کھلی اور تلخ دشمنی میں تبدیل ہو  جاتی ہے۔ ہم بدنیتی برداشت کرتے ہیں،  قانونی چارہ جوئی کرتے ہیں، ہم حمایت یافتہ گروہوں اور بااثر افراد کو رشوت دیتے ہیں، تاکہ ہم اپنے مخالفین پر فوقیت حاصل کرسکیں، اور انچے  رتبے کیلئے کوشیشیں کرتے ہیں۔ ہارے ہوئے  نہ تو محنت کرے گا اور نہ ہی پسینہ بہائے گا۔  نہ تو تجارت میں اور نہ کسی اور کام میں کوئی دلچسپی ظاہر کرے گا۔ وہ کبھی کسی ایک گروہ کے ساتھ ہوگا  اور کبھی دوسرے گروہ کو اپنا آپ اپنی  موجودہ بدحالی  کی وجہ سے بیچ دے گا بدنامی میں ملوث ہوگا۔لوٹ مار  کی کوئی انتہا نہیں۔ اگر ہمارے لوگوں میں اتحاد ہوتا، تو وہ کبھی بھی کسی ایسے چور کو معاف نہ کرتے جو ایک گروہ یا دوسرے گروہ کی حمایت استعمال کرتے ہوئے  لوٹ مار کرتا ہے۔

ایماندار لوگوں پہ بے بنیاد الزامات لگا دیے جاتے ہیں اور انہیں ذلت آمیز تفتیش کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گواہوں کو ایسے چیزوں پہ قسم کھانے کیلئے تیار کیا جاتا ہے جو انہوں نے نہ کبھی دیکھیں نہ کبھی سنی۔ اور یہ سب اسلئے کیا جاتا ہے کہ ایماندار شخص کو بے عزت کیا جا سکے اور اسے اعلی عہدوں سے روکا جا سکے۔ اگریہ مظلوم آدمی اپنے آپ کو بچانے کے لیے ان ہیشر پسندوں سے  مدد کرنے کا مطالبہ کرتا ہے  تو وہ اپنی عزت کو داؤ پہ لگائے گا اور اگر وہ ان کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہے  تو اس پر بلاجواز الزام لگادیا جائے گا۔اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسے اپنی قابلیت کے مطابق کسی بھی جگہ کوئی پیشہ نہیں ملے گا۔  دھوکہ دہی کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے والے یہ سربراہ ایماندار لوگوں سے ایسے ہی چھپتے ہیں جیسے لوگ کسی وبا سے چھپتے ہوں اور اپنے جیسے شرپسند اور بدمعاش لوگوں کو اپنا اتحادی بناتے ہیں جن سے انکو خود ڈر لگتا ہو۔

ایک نئی کہاوتہے اب کہ معاملہ پہ نہیں، شخصیت پہ انحصار کرتا ہے۔  دوسرے لفظوں میں، کامیابی کا انحصار اس معاملے پر نہیں، بلکہ اس میں ملوث شخص کی ہوشیاری پر ہے۔وولسٹ سربراہان تین سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ اپنا پہلا سال ہر طرح کے شکایات اور سننے میں گزارتے ہیں: یہ مت بھولنا کہ ہم نے آپ کو منتخب کیا!دوسرا سال مستقبل کے ممکنہ حریفوں سے لڑنے کے لیے اور تیسرا سال ان کی دوبارہ انتخابی مہم کے لیے ہوتا ہے۔ پھر بچا ہی کیا ہے۔ اپنے لوگوں کو  تنازعوں میں ڈوبتے ہوئے دیکھ کے میں اس نتیجہ پہ پہنچا ہوں کہ وولسٹ سربراہان کا انتخاب ان لوگوں میں سے ہونا چا ہئے جنہوں نے کچھ روسی تعلیم حاصل کی ہو،  چاہے کم ہی کیوں نا ہو۔ اگر وہاں کوئی بھی ایسا نہ ہو  یا صرف وہ افراد ہیں جن کو لوگ نامزد نہیں کرنا چاہتے، تو پھر اعلی فوجیوں کو وولسٹ سربراہان  مقرر کرنے دیں۔یہ کئی طریقوں سے فائدہ مند ہوگا۔ سب سے پہلے، پرجوش قازق باشندے اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں گے۔ دوسر ا یہ کہ وولسٹ سربراہان کے احکامات مقامی لوگوں کی خواہشات کی بجائے اعلی اداروں  پر منحصر ہوں گی۔

ناگزیر اعتراضات اور تنقید سے بچنے کیلئے  تقرر شدہ شخص کومقامی لوگوں کے کنٹرول اور اثر میں نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اس طرح کے بے اثر انتخابات کئی مرتبہ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ 

ہر کوئی منصف نہیں ہو سکتا۔ اعلی عہدہ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ان کو اپنے اباواجداد کے قوانین کا علم ہو۔ جیسا کہ قاسم خان کا   ، عاصم خان کا    اور آزتوکے خان کی۔ لیکن یہ قوانین بھی وقت کیساتھ فرسودہ ہو چکے ہیں اور ان میں ترامیم کیلئے قابل ترجمان کی ضرورت ہو گی جو کہ اگر لوگوں میں ابھی موجود بھی ہیں،  اگر ہیں،  تو بہت کم ہیں۔ جو لوگ قازق طریقوں سے بخوبی واقف ہیں  وہ کہتے ہیں:جب دو قاضی  اکٹھے بیٹھیں گے چار تنازعات یقینی ہیں۔ ایک اعلی جج کی کمی اور متعدد قاضیوں کا ایک معاملے کی سماعت بھی تنازعات کے فیصلے کو پیچیدہ بناتی ہے۔سربراہان کی تعداد میں اضافہ کیوں؟کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ہر طبقے میں سے  تین پڑھے لکھے اور ذہین افراد کالامحدود مدت کیلئے انتخاب کیا جائے اور صرف ا ن کو  تبدیل کیا جائے جن کا رویہ نا مناسب ہو۔ قانونی جھگڑے دوثالثوں کے ذریعے طے کریں۔ ایک ثالث جس کو سب نے منتخب کیا ہو اور دوسرا جس کو دونوں فریق ثالث تسلیم کرتے ہوں۔ پھر بھی اگر سچائی کا سراغ نہ لگایا جا سکے تو اس تنازعہ کو تین مستقل ججوں میں سے کسی ایک کے پاس لے جایا جائے۔ اسطرح قانونی کاروائی میں تاخیر نہیں ہوگی۔

چوتھا  لفظ

مشاہدین بہت پہلے بتایا کرتے تھے کہ بیوقوف کی  ہنسینشے  کی طرح ہے۔نشے میں انسان بدتمیزی کرتا ہے اور ایسے شخص کیساتھ بات کرنا  باعث سر دردی ہے۔  جو کوئی بھی مسلسل اپنے ہوش و حواس میں نہیں رہتا وہ اپنے  ضمیر کو نظر انداز کرتا ہے، اپنے معاملات کو نظر انداز کرتا ہے اور ناقابل معافی غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ان غلطیوں کی سزا اسے اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلے جہان میں ضرور ملے گی۔ عبادت گزار لوگ  اس دنیا میں اور موت کے وقت بھی سمجھدار اور معقول ہوتا ہے۔

  سوچ و عمل میں تدبرانسانیت کی بنیاد ہے۔  لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ مایوس رہیں؟ کیا ہماری روح کو خوشی اور مسرت نہیں صرف غم سے آشنائی ہوگی۔ ہر گز نہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں بلا وجہ غمگین ہونا چاہیے بلکہ ہمیں اپنے لاپروہ طریقوں کے بارے میں سوچ، انہیں رد کر کے  کسی مفید پیشے کیساتھ  ترک کر دینا چاہیے۔ اور  توبہ کرلینی چاہیے۔صرف ایک منطقی اور فائدہ مند کام ہی روح کی تسکین کا ذریعہ بن سکتی ہے نہ کہ بے حسی کی خوشی۔ صرف ایک کمزور روح ہی بغیر تسلی کیے خود کو تلخ خیالات کے سپرد کرکیپیچھے ہٹے گا۔ 

اگر آپ بیوقوف کی حماقتوں پر ہنس رہے ہوں تو اس کی حماقتوں سے محزوز نہ ہوں  بلکہ جائز غصہ کا اظہار ہو۔ ایسی ہنسی مزاق سے دور رہنا چاہیے کیونکہ یہ تلخ حقیقت ہے۔  جب آپ کسی ایسے شخض کو دیکھیں جو اچھی زندگی گزارے،جس کے حسن سلوک قابل تقلید ہو تو اخلاص کے ساتھ خوش دلی سے ہنسیں۔ ایک اچھی مثال عاجزی اور رواداری کی تعلیم دیتی ہے، کسی کو غلط کام اور شراب نوشی سے روکتی ہے۔تمام ہنسی منظوری کے مستحق نہیں ہیں۔ ہنسی کی ایک قسم وہ بھی ہے جو دل سے نہیں آتی لیکن زبردستی سے ہنسنا پڑتا ہے۔

انسان روتے ہوئے دنیا میں آتا ہے اور غموں میں دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ انسان دنیا میں رونے آتا ہے اور اسی غم میں چھوڑ دیتا ہے۔ ان دو واقعات کے دوران اس کوعطا کی ہوئی زندگی کی اہمیت اور انفرادیت کو پوری طرح سمجھے بغیر وہ اسے بغیر سوچے سمجھے گوا  دے گا، اسے چھوٹے چھوٹے  غیرضروری  جھگڑوں میں ضائع کر دے گا، اور  حقیقی خوشی سے محروم رہے گا۔ وہ تب سوچے گا جب زندگی کی ختم ہونے والی ہوگی۔  تب اسے احساس ہوگا کہ زمین کا کوئی خزانہ اس کی زندگی ایک دن بھی نہیں بڑھا سکتا۔  جھوٹ، دھوکا دہی اور بھیک بے معنی چیزیں ہیں۔  خدا پربھروسہ رکھیں، اپنی طاقتوں  اور  صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں۔ سخت ترین زمین بھی دیانتداری اور بے لوث محنت سے  اچھی فصلیں پیدا کردیتی ہیں۔

 

پانچواں  لفظ

زخم جسم کو سرد اور روح کو اندھیرے میں دکھیل دیتا ہے۔ انسان اپنی مرضی کا مالک نہیں رہتا۔  اور پھر الفاظ اور آنسوؤں میں پھوٹ پڑتا ہے۔میں نے لوگوں کو دعائیں مانگتے ہوئے دیکھا ہے کہ   اے اللہ مجھے  چھوٹے بچوں کی طرح  لاپرواہ بنا دے۔ وہ اپنے آپ کو غمزدہ، پریشانیوں اور بدبختیوں سے دوچار تصور کرتے ہیں، گویا  نوزائیدہ بچوں سے زیادہ عقل رکھتے ہیں۔ ان کی پرواہ اور تشویش  کا اندازہ اس محاورے سے لگایا جاسکتا ہے:

’اگر زندگی دوپہر سے زیادہ نہیں توپورے دن کا بندوبست کرو‘،  ’یہاں تک کے اس کا باپ ایک بھکاری کے لیے بھی انجان بن جاتا ہے‘،  ’قازق کواسکے مویشی اسکی جان سے زیادہ عزیز ہیں‘،  ’امیر بندے کے چہرے پہ ہمیشہ نور رہتا ہے جبکہ  ایک غریب آدمی کے چہرے کے تاثرات پتھر کی مانند سخت‘،   ’بہادر اور بھیڑیوں کو راہ چلتے کھانا مل جائے گا‘،  ’امراء کے ریوڑ دوسروں کی دیکھ بھال میں چھوڑ دئیے جاتے ہیں، ماسوائے  جب ان لوگوں کے پاس کچھ بہتر کرنے کو نہ ہو‘،  ’جو ہاتھ لیتا ہے وہ دیتابھی ہے‘،  ’امیر لوگ ہمیشہ حق پہ ہوتے ہیں‘،  ’اگر آپ اپنے سردار پر بھروسہ نہیں کر سکتے  تو خدا پر بھی نہ  کریں‘،  ’اگر آپقحط زدہیں تو میت والے گھر  جائیں‘،  ’گہری جھیل سے اور بے رحم لوگوں سے بچو‘۔

ایسیبے شمار محاورے موجودہیں۔ اب،وہ ہمیں کیا بتاتے ہیں؟ قازق کا مقصد علم کا حصول، انصاف یا امن نہیں بلکہ اسکی واحد فکریہ ہے کہ امیرکیسے ہونا ہے۔ وہ امیر لوگوں کی خوش آمد کی طرح مبذول ہوتا ہے  اور اگر وہ کامیاب نہ ہوا تو وہ ساری دنیا کو اپنا دشمنسمجھیگا۔ یہاں تک کہ اسے اپنی باپ کی بھی تکلیف کا احسا س بھی نہ ہوگا۔ ہمارے درمیان یہ رواج نہیں ہے کہ جو لوگ دھوکہ دہی، جھوٹ،  یا  دیگر جرائم کے ذریعہ مویشوں کا قبضہ کرتے ہیں ان کی تدارک کریں۔  تو ان کا دماغ کسی بچے سے کیسے مختلف ہے؟ بچے آگ سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں، جبکہ بڑوں کو جہنم کی آگ سے بھی خوف نہیں آتا ہے۔ جب انہیں شرم آتی ہے تو، بچے چاہیں گے کہ زمین انہیں نگل لے، لیکن بڑوں  کو کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ کیا یہ چیز انہیں بچوں سے برتر بناتی ہے؟ اگر ہم انہیں انکا حق نہ دیں، اگر ہم اانہیں خود کو برباد نہ کرنے دیں  تو وہ ہم سے منہ پھیر لیں گے۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہمیں پورے دل سے پیار کرنا چاہیے؟

 

چھٹا لفظ

ایک لوفر  بے ہودہ ساتھی،

جو بہادر نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں بزدل ہوتا ہے۔

اسے کوئی احساس شرمندگی نہیں۔

قازقستان میں ایک کہاوت ہے:

 َِ”کامیابی کا ذریعہ اتحاد اور فلاح و بہبود ہے“۔پھر بھی وہ کون لوگ ہیں جو اتحادو  اتفاق میں رہتے ہیں اور کیسے؟ اس حوالے سے قزق جاہل ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اتحاد  مویشیوں کی مشترکہ ملکیت،اورساتھ  کھانے میں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو دولت کا کیا فائدہ اور غربت میں کیا نقصان؟کیا رشتہ داروں سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر امیر ہونے کے لئے سخت محنت کرنا قابل عمل ہوگا؟نہیں،اتحاد لوگوں کے ذہن میں ہونا چاہیے نہ کہ اجتماعی دولت میں۔ مختلف موصوف،مذہب اور نظریات سے وابستہ لوگوں کومویشیوں کی کثر ت د ے کر ان کا اتحاد ممکن ہے۔لیکن مویشیوں کی قیمت پر اتحاد کا حصول،  یہ اخلاقی زوال کا آغاز ہے۔بھائیوں کو چاہئے کہ وہ ہم آہنگی کے ساتھ زندگی گزاریں کیونکہ ایک دوسرے پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہر ایک اپنی صلاحیتوں اور طاقت پر اپنیمنزل کا تعین کرتے ہیں۔بصورت دیگر وہ خدا کو بھی بھول جائیں

گے اور کوئی قابل پیشوں کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کریں گے۔وہ باز نہیں آئیں گے اور بہتان لگائیں گے  اور دھوکہ دیں گے۔پھر اس میں کسی قسم کا اتحاد ہو سکتا ہے؟”زندگی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہے“۔یہاں زندگی کا مقصد کیاہے؟صرف جسم اور روح کو ایک ساتھ رکھنے کے لئے؟لیکن ایک کتا بھی اس طرح کے و جود سے مالا مال ہے۔جو ایسی زندگی رکھتا ہے،  جو موت کے خوف سے دوچار ہے، زندگی کا ابدی دشمن بن جاتا ہے۔اپنی جان کیلئے دشمن سے بھاگے گااور بزدل جانا جائے گا۔کام چور بن اور نیکی کا دشمن بن جائے گا۔  نہیں،  کہاوت  میں ایک اور قسم کی زندگی سے مراد ہے۔  وہ جو روح کو زندہ  اور دماغ کو صاف رکھتا ہے۔اگر آپ کا جسم زندہ ہے لیکن آپکی روح مر چکی ہے توعقل و دانش کے الفاظ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گے،اور آپ ایمانداری سے زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہیں گے

 

ایک لوفر  بے ہودہ ساتھی،

جو بہادر نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں بزدل ہوتا ہے۔

اسے کوئی احساس شرمندگی نہیں۔

اگر آ پ ایسے ہیں تو خود کو زندہ تصور مت کیجئے۔

 موت اس طرح کے وجود سے بہتر ہوگی۔

 

ساتواں لفظ

اس دنیا میں پیدا ہوئے  نوزائیدہ بچے کی دو  ضرویات ہوتیں ہے۔پہلا جسم کیلئے کھانے  پینے اور نیند کی ضرورت۔یہ جسم کی ضروریات ہیں جس کے بغیر  جسم روحکی پناہ گاہ  نہیں بن سکتا اورقد وقامت  اور طاقت میں بڑھ نہیں سکتا۔ دوسرا علم کیپیاس ہے۔ بچے چمکیلی اور  رنگا رنگ چیزوں کو   اپنے منہ میں ڈالے گا،اس کا ذائقہ چکھے گا اور اسے اپنیچہرے کیساتھ لگائے  گا۔یہ آلہ ء موسیقی کی آواز سے شروع ہوگی۔ بعد میں،کتوں کا بھونکنا، جانوروں کا شور، لوگوں کا ہنسنا یا  رونا سنتا ہے تو وہ خوش ہوتا ہے اور جو کچھ دیکھتا  اور سنتا ہے اس کے بارے میں پوچھتا ہے:یہ کیا ہے؟کس چیز کیلئے ہے؟ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ یہ صرف روح کی فطری خواہش ہے کہ ہر چیز کو دیکھے سنے اورسیکھے۔کائنات کے اسرار کو جاننے کی کوشش کیے بغیر،ظاہر ی اور پوشیدہ،ہر چیز کی وضاحت طلب کیے بغیر،کوئی بھی خود کو انسان نہیں کہلا سکتا۔  بصورت دیگر کسی شخص کی روحانی زندگی کسی دوسرے جاندار کے وجود سے مختلف نہیں ہوگی۔خدا نے ابتدا ہی سے انسان میں روح پھونک اس کو   حیوان سے الگ کر دیا۔تو پھر کیوں،عمر کیساتھ اور حکمت حاصل کرنے پر، ہممیں وہ تجسس نہیں رہتا جو ہمیں کھانے پینے اور سونے نہیں دیتا؟کیوں ہم علم حاصل کرنے والوں کی تقلید نہیں کرتے۔ یہ ہمیں  اپنی دلچسپیوں اوردانشمندی کو وسعت دینے کی صلاحیت دیتی ہے  جو  روحوں کی پرورش کرتی ہے۔

ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ روحانی خوبیاں جسمانی خوبیوں سے کہیں زیادہ برتر ہیں،اور اسی طرح اپنی جسمانی خواہشات کو اپنی روح کے حکم کے ماتحت کرنا سیکھیں۔لیکن نہیں،ہمیں ایسا کرنے سے نفرت ہے! ہم اپنی چیخ و پکار میں اپنے تنازعات سے آگے نہیں بڑھے۔ صرف ہمارے بچپن میں ہی ہم نے اپنے روحکی مانی۔جب ہم بڑے اور طاقتور ہوئے  تو ہم نے اس کے احکامات کو مسترد کر دیا،ہم نے اپنی روح کو جسم کے تابع کر دیا، اور اپنے ارد گرد کی چیزوں کو اپنے دماغ کی بجائے آنکھوں سے دیکھناشروع کیا۔ہمیں اپنے روح پر بھروسہ نہیں ہے۔  ظاہری نمائشوں سے مطمئن،ہم پوشیدہ بھید افشاں کرنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں، اس غلط فہمی میں کہ اس طرح کی لاعلمی سے ہم کچھ بھی نہیں کھوئیں گے۔عقلمند لوگوں کی صلاح ومشورے کا،ہم جواب دیتے ہیں۔

”تم اپنی مرضی سے جیتے رہو،میں اپنے حال میں خوش ہوں،“  یا  ”ہم اپنی مرضی سے غریب رہنے کو فوقیت دیں گے بجائے اس کے تمہاری مرضی سے امیر ہوں۔“  ہم ان کی بڑھائی  اور ا ن کی باتیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ نہ تو ہماری سینے میں کوئی چنگاری  رہی اور نہ ہی ہماری روحوں میں ایمان۔  اگر ہم چیزوں کو صرف اپنی آنکھوں سے دیکھتے  ہیں  تو ہم میں اور باقی جانوروں میں کیا فرق؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے بچپن میں ہی بہتر تھے۔اس وقت ہم انسان تھے کیوں کہ ہم زیا دہ سے زیادہ سیکھنے کی کوشیش کرتے تھے۔ لیکن آج ہم درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ایک جانور کچھ بھی نہیں جانتا  اور اس کی زندگی میں  کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ ہم کچھ نہیں جانتے،لیکن اس وقت تک بحث کریں گے اور خود کا دفاع کریں گے۔ہم اپنی جہالت کو علم کے طور پرپرچار کرتے ہیں۔

آٹھواں لفظ

کیا کوئی ہمارے مشورے سن کر ان پر غور کرے گا؟ ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی سردار ہو اور دوسرا قاضی۔اگر ان میں عقلمند اور سمجھدار بننے کی تھوڑی سی بھی خواہش ہوتی تو کیا وہ ایسی آسامیاں ڈھونڈتے؟  یہ لوگ 

اپنے آپ کو بے حد  ہوشیار سمجھتے ہیں اوراقتدار کی تلاش میں ہوتے ہیں  تاکہ دوسروں کو سیکھائیں اور رہنمائی کریں، گویا کہ وہ خود کمال کی بلندیاں پا چکے ہیں اور ان کے پاس دوسروں کی رہنمائی کے سوا کوئی کام نہیں۔  کیا یہ ایسے لوگ ہیں جو ہماری بات سننے کیلئے وقت نکالیں؟  ان کے دماغ دوسریمسائل میں الجھے ہوئے ہیں  :نا تو اپنے اعلی افسران کوغیر ارادی طور پر ناراض کرنا،  ناہی کسی  چور کے غصے کو بھڑکانہ، نہ لوگوں میں پریشانی اور الجھن پیدا کرنا،  اونا ہی کسی ناکامی سے دوچار ہونا ،بلکہ کچھ ذاتی فائدہ اٹھانا ہے۔  اس کے علاوہ،وہ لوگوں کو پریشانیوں سے نکالنے میں مدد کرتے ہیں۔

کیا یہ امیر لوگ بہت مصروف ہوتے ہیں۔ کسی چیز کا انتظار نہیں کرتے۔ اگر ان کے پاس ایک دن کیلئے بھی دولت آجائے تو ایسا سمجھتے ہیں جیسے آدھی دنیا کے خزانے ہیں ان کے پاس اور یہ اپنی کسی بھی کمی کے عوض مویشیوں  میں ادائیگی کر دیں گے۔وہ اپنی نگاہیں اونچی اور اپنے عزائم اس سے بھی اونچے رکھتے ہیں۔

 انہوں نے اپنی نگاہوں کو اونچا اور اپنے عزائم کو اور بھی اونچا رکھا ہے۔ان کو اپنی عزت، ضمیر اور اخلاص اپنے  ریوڑ سے زیاد ہ  عزیز نہیں ہیں۔انہیں یقین ہے کہ اگر وہ اپنے مویشیوں کے مالک ہیں تو وہ یہاں  اعلی ترین عہدیدار کو بھی رشوت دے سکیں گے۔ان کواپنے مال مویشی   اپنے  آبائی زمین،لوگوں،مذہب،کنبے اور تعلیم سے زیاد ہ عزیز ہیں۔ پھر وہ دوسرے لوگوں کے مشوروں کو کیوں سنیں؟  کچھ لوگ سننا بھی چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس وقت نہیں۔ اسے اپنے مویشیوں کو اچھے دام بیچنے کیلئے ان کو کھانا کھلانا،  پانی پلانا، چوروں،  بھیڑیوں اور سردی سے بچانا ہوتا ہے۔ وہ اپنے باقی کام دوسروں سے کرواتے ہیں۔

یہ سب کرنے کے بعد وہ غرورمیں بڑھا چڑھا کے لوگوں کو بتائے گا، اور اسطرح اس کے پاس کسی اور چیز کیلئے وقت نہیں بچتا۔جہاں تک چوروں اور ڈاکوں کی بات ہے، وہ نہیں سنیں گے۔  غریب لوگ، بھیڑوںکی طرح مسکین، اپنے روز مرہ کی روزی کیلئے فکر مند ہوتے ہیں۔  وہ نصیحت، سیکھنا اور دانش کو کیا کریں جب امیروں کو ہی نہیں چاہیئے۔   ”ہمیں اکیلا چھوڑ دیں،ان لوگوں سے بات کریں جو ہم سے زیادہ عقلمند ہیں “۔ وہ ایسا سمجھتے ہیں جیسے علم غریب کیلئے کوئی فائد ہ نہیں رکھتا۔ لیکن غریب لوگ کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔  اگر ان کے پاس وہ سب ہوتا جو دوسرے لوگوں کے پاس ہے  تو انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔

 

نواں لفظ

 

مرتے وقت،میں روں گا   نہیں

افسوس،میں نے  اس خوشی کا مزہ نہیں چکھا!

دنیاوی چیزوں پہ ندامت کے ساتھ اپنے آپ کو اذیت دینا،

 مجھے آنے والی زندگی میں سکون ملے گا۔

 

ابائی کنان باوٗ

 

میں بھی قازق ہوں۔لیکن کیا مجھے قازقستان سے محبت ہے یا نہیں؟  اگر میں ایسا  کرتا تو، میں ان کے طریقوں کو منظور کر لیتا اور مجھے ان کے طرززندگی سے خوشی اور تسلی ملتی۔ کم از کم ان کی کچھ عادتوں کی تعریف اور   امید کی کرن کو زندہ رکھنے وجہ بنتی۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔اگر میں سے محبت نہ کرتا تو میں ان سے دل سے بات نہ کرتا اور نہ ہی ان کی  اصلاح لیتا۔میں ان کے درمیان نہ رہتا  اور نہ ہی ان کے امور میں یہ پوچھ کے  دلچسپی لیتا کہ یہاں لوگ کیا کر رہے؟  یہاں کیا چل رہا؟  میں خاموش بیٹھا ہوتا،یا پھرتارہتا۔مجھے کوئی امید نہیں ہے کہ یہ  اپنے طور طریقوں کو بہتر بنائیں گے یا  میں ان کی اصلاح کرپاوٗں گا۔تو اسلیئے میں کچھ محسوس نہیں کرتا۔  لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟  مجھیکسی دو میں سے کوئی ایک  کو  چننا چاہئے تھا۔اگرچہ میں زندہ ہوں، میں خود کو زندہ نہیں سمجھتا ہوں۔مجھے نہیں معلوم کیوں؟شاید مجھے لوگوں پہ غصہ ہے یا پھر میں خود سے مطمئن نہیں یا پھر کوئی اور وجہ۔  ظاہری طور پر زندہ لیکن اندرسے مردہ۔ظاہری طور پر غصہ ،پرمجھے کوئی غصہ نہیں۔ہنسنا،  خوشی محسوس کرنے سے قاصر ہوں۔  میری ہنسی اور جو الفاظ میں بولتا ہوں وہ میرے اپنے نہیں لگتے۔ سب کچھ اجنبی ہے۔میری جوانی کے دنوں میں کبھی ایسا نا سوچا تھا کہ کوئی اپنے لوگوں کو چھوڑ سکتا ہے۔ میں قازقستان سے دل سے پیار کرتا تھا اور ان پر یقین کرتا تھا۔۔لیکن جب میں نے اپنے لوگوں کواچھی طرح  جانا تو  میری امیدیں ختم ہونے لگیں، میں نے محسوس کیا کہ  میں اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کے اجنبی لوگو ں کے ساتھ روابط قائم کرنے کی طاقت   نہیں رکھتا۔  یہی وجہ ہے کہ اب میرے دل میں ایک خالی پن ہے۔لیکن پھر میں سوچتا ہوں،شاید اسی میں بہتری ہوگی۔مرتے وقت،میں روں گا نہیں۔  افسوس،میں نے  اس خوشی کا مزہ نہیں چکھا!  دنیاوی چیزوں پہ ندامت کے ساتھ اپنے آپ کو اذیت دینا،  مجھے آنے والی زندگی میں سکون ملے گا۔

 

دسواں لفظ

 

ایک اچھا بچہ خوشی کاجبکہ ایک  برا  بوجھ کا باعث ہوتا ہے۔کون جانتا ہے کہ خدا آپ کو کیسا بچہ عطا کرے گا؟ یا پھر آپکو پوری زندگی زلت سے گزارنی پڑی گی۔

ًًًًٌؔئِؔ َّابائی کنان باوٗ

 

ایک اچھا بچہ خوشی کاجبکہ ایک  برا  بوجھ کا باعث ہوتا ہے۔لوگ خدا سے بچوں کیلئے دعا مانگتے  ہیں۔مرد کوبچے کی کیا ضرورت ہے؟مرد کوبچوں کی کیا ضرورت ہے؟  ان کا کہنا ہے کہ ایک وارث ہونا چاہئے  جو کہ   بڑھاپے میں اپنے والدین کاسہارا  بنے  اور ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے دعا کرے۔ کیابس یہی؟ایک وارث چھوڑنا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟کیا تمہیں یہ  ڈر ہے کہ تمہارے بعد تمہاری جایئداد کو دیکھنے والا کوئی نہیں ہو گا؟  لیکن تمہیں ان چیزوں کی پرواہ کیوں ہے جو تم پیچھے چھوڑ جاوٗ گے؟کیا، آپ کو افسوس ہے کہ انہیں دوسرے لوگوں کے پاس چھوڑ دیں؟کون سے خزانوں کا اتنا افسوس ہے تمہیں؟ ایک اچھا بچہ خوشی کاجبکہ ایک  برا  بوجھ کا باعث ہوتا ہے۔کون جانتا ہے کہ خدا آپ کو کیسا بچہ عطا کرے گا؟ یا پھر آپکو پوری زندگی زلت سے گزارنی پڑی گی۔یا کیا آپ نے بہت کم غلطیاں کی ہیں؟   تم بچوں کیلئے  اتنے بیتاب کیوں ہو؟  اسلیئے کے اسے  بھی اپنی طرح زلت سے دوچار کرو۔تم چاہتے ہو کہتمہارا  بیٹا  موت کے بعدتمہارے  لئے دعا کرے۔لیکن اگرتم نے اپنی زندگی میں اچھے کام کیے ہوں  تو تمہارے  روح کے آرام کے لئے کون دعا نہیں کرے گا؟  اور اگرتمنے صرف برائی کی ہو،تو تمہارے  بیٹوں کی دعاؤں کا کیا فائدہ ہوگا؟  کیا وہ تمہارے نام پہ   اچھے اور نیک کام کرے گا،جن کو تم انجام دینے میں ناکام رہے؟

اگر تم اپنی اولاد کیلئے اگلے جہان کی خوشیاں مانگتے ہو تو  اس کا مطلب ہے کہتم اس کے  جلد موت کی خواہشمند ہو۔ لیکن اگر تم اولاد اپنے اس جہان کی خوشی کیلئے چاہتے ہو تو  کیا قازق ایسا بیٹا پیدا کرسکتا جو بڑھاپے میں اپنے والدین کا خیال رکھے اور انکا سہارا بنے۔

 کیا ایسے لوگ اور آپ جیسا  باپ اس طرح کے قابل بیٹے کی پرورش کر سکتے ہیں؟ آپ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کے ضعیف عمر میں آپ کے کھانے اور پہناوے کا خیال رکھے۔ ایک بیکار امید۔سب سے پہلے،کیا آپ اتنی عمر تک زندہ رہیں گے؟دوسرا،کیا آپ کا بیٹا اتنا مہربان ہوگا کہ بڑھاپے میں آپ کا خیال رکھے؟ اگر تمہارے پاس مال مویشی ہیں تو تمہارا خیال رکھنے کیلئے ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوگا۔ اور اگر نہیں تو کون جانتا ہے کہ آپ کا خیال کون اور کیسے رکھے گا؟  اور کون جانتا ہے کہ آیاتمہارا  بیٹاتمہاری  دولت میں اضافہ کرے گا یا تمہاری  محنت کے ذریعہ حاصل کردہ چیزوں کو ضائع کر دے گا؟  ٹھیک ہے، فرض کرتے ہیں  کہ خدا نےآپ کی دعا سن لی ہے اور آپ کو بیٹا دیا ہے۔ کیاتم اسے اچھی تعلیم کا بندوبستکریں گے؟   نہیں تم ایسا نہیں کرو گے!  تمھارا بیٹا تمہارے کئے گناہوں میں اضافہ کریگا۔تم اسے شروع سے ہی جھوٹ بولو گے۔

کبھی ایک چیز کا وعدہ اور کبھی دوسری چیز کا۔ اور اسے دھوکہ دے کے تمہیں خوشی ہو گی۔ پھر تم کس کو الزام دو گے جب وہ بڑا ہو کے جھوٹا بنے گا۔ تم اسے دوسروں کو برا بھلا کہنا اور بری زبان سکھاوٗ گے۔تم اس کے غلط کاموں کو معاف کرو گے:اس لڑکے کو کچھ نہ کہنا۔ اور اسطرح اسکی حوصلہ آفزائی  ہو گی۔   اس کی تعلیم کے لئیتم اکسی مولوی کو منتخب کروگے تاکہ تم اسے کم معاوضہ دو اور وہ اسے صرب پڑھنا لکھنا سکھائے۔  

ٓآپ اسے دھوکہ بازی اور کم ظرفی کا درس دے رہے۔ کیا یہ آپ کی پرورش ہے؟  اور آپ کو ایسے بیٹے سے مہربانی کی توقع ہے؟اسی طرح، لوگ دولت کے لئے خدا سے دعا مانگتے  ہیں۔۔ انسان کو دولت کی کیا ضرورت؟  کیا تم نے خدا سے مانگا؟  ہاں، تم نے مانگا اور خدا نے عطا کیا  لیکن تم وہ حاصل نہ کر سکے۔ اس نے تمہیں کام کرنے کی طاقت اور خوشحالی دی۔  لیکن کیا آپ اسے ایماندرانہ مشقت کے لئے استعمال کرتے ہیں؟  نہیں!خدا نے آپ کو سیکھنے کی  صلاحیت عطا کی، علم کیلئے دماغ عطا کیا۔ لیکن کون جانتا ہے کہ تم نے اسے کس کام کیلئے استعمال کیا ہے۔ کون اپنی انتھک محنت سے اور اپنے دماغ کو صحیح  استعمال کر کے خوشحال نہیں ہو گا؟لیکن تمہیں اس کی ضرورت نہیں۔ آپ ڈرانے، دھوکہ دینے اور دوسرے لوگوں سے بھیک مانگ کرامیر بننے  کی دعا کرتے ہیں۔یہ کیسی دعا ہے؟  یہ  ایسا بھکاری شخص ہوتا ہے جو اپنا ضمیر اور عزت کھو بیٹھا ہے۔فرض کریں  آپ نے یہ راہ منتخب کر لی اور مال مویشیوں کی ملکیت حاصل کرلی۔ اس کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے استعمال کرو۔ اپنے لئے نہیں تو اپنے بیٹے کیلئے۔ تعلیم کے بغیر نہ تو ایمان ہوسکتا ہے اور نہ ہی خوشحالی۔ علم کے بغیر کوئی دعائیں،  روزے یا زیارتیں اپنے مقصد حاصل نہیں کر سکتی۔میں نے آج تک ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے بے ایمانی سے دولت حاصل کی ہو اور اسے اچھے کاموں کیلئے  استعمال کیا ہو۔حرام کی کمائی حرام پہ ہی خرچ ہوتی ہے۔ اور اسطرح کی دولت  مایوسی،غصے اور روح کی تکلیف کے سواکچھ نہیں دیتی۔ جبکہ اس کے پاس دولت ہے،وہ فخر کرے گا اور ڈوبے گا۔ ضائع کرنے کے بعد   وہ اپنی سابقہ دولت کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بیان کریگا۔ غربت کے مارے، وہ بھیک مانگنا شروع کر دیگا۔

 

گیارہواں لفظ

ہمارے لوگوں کا ذریعہ معاش کیا ہے؟   دو راستے ہیں۔ایک تو چوری۔ ایک چور اپنے چوری سے اپنا پیٹ بھرنے کی امید رکھتا ہے اور ایک سردار اپنے چوری شدہ چیزوں  کی بازیابی کرکے اپنے ریوڑ میں اضافہ کرنے کی امید کرتا ہے۔ اقتداران سرداروں کو انکی مویشیوں کی بازیابی اور چوروں کو انصاف سے بچنے کے وعدے کر کے دھوکا دیتے ہیں۔ آپکا عام آدمی حکام کو چوری کی اطلاع بھی دیگا لیکن ساتھ ہی چوری شدہ مال کوخریدنے میں معاونت بھی کریگا۔  ایک اور طریقہ بھی ہے۔ دھوکہ بازوں نے عام لوگوں کو ایسی چالوں پہ امادہ کیا ہوتا ہے جس کا وہ کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ انکو کبھی یہ کبھی وہ کرنے کو کہتے ہیں کہ اس سے  آپ امیر اور مشھور ہو جایئنگے۔  آپ کو ناقابل شکست سمجھا جائے گا اور آپ کے مخالفین آپ سے خوفزدہ ہوں گے۔ برائی کا پرچار اور لوگوں کو ایک دوسرے کیخلاف کرنے سے، یہ دھوکہ باز اپنی خدمات پیش کر کے نفع حاصل کرنے کی امید میں ہوتے ہیں۔ وہ  اسی طرح زندہ رہتے ہیں:  سرداروں اور چوروں کی مدد کر کے، غریب لوگوں کو طاقت کی لالچ دے کے، تنازعات میں انکی پشت پناہی کرکے، کبھی ایک کے ساتھ اور کبھی دوسروں کیساتھ ہوتا ہے۔ اپنی عزت، اپنی بیوی، بچے اور رشتہ داروں کو سستے داموں بیچ دیتا ہے۔۔ اگر چور اوردھوکہ باز نہ ہوتے تو ہمارے لوگ سوچتے۔وہ ایمانداری سے کام کرتے  اور نیکی اور حکمت کی تلاش کرتے۔سردار اپنی چیزوں پہ اکتفا کرتے  اور غریب آدمی،  امید اور اعتماد کے کھوئے بغیر، اپنی کمائی کر سکتاجس کی اسکے پاس کمی ہے۔انکے ہونے کے باوجود عام لوگ گھناؤنے کا روبار میں ملوث ہوجاتے ہیں۔ کون ہے جو اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے؟  کیا عزت اور وعدے،وفاداری اور ضمیر غائب ہوجائیں گے؟ہو سکتاہے کہ ایسی قوت ہو جو چوروں کو مات دینے کے قابل ہو۔لیکنان سرداروں  کا کیا ہوگا جو لالچ کی وجہ سے دھوکہ بازوں سے مل جاتے ہیں۔ اسکو اس کی وضاحت کون اور کیسے کریگا؟

 

بارہواں لفظ

جب کوئی شخص کلام الہی کی تعلیمدیتا ہے تو چاہے وہ یہ کام اچھی طرح سے ا نجام دے  یا بری طرح، ہم اس کو منع نہیں کرسکتے۔ وہ روشن خیال نہیں لیکن اس کو تبلیغ کرنے دیں۔تاہم، اس آدمی کو دو  اہم شرائط یاد رکھنا چاہئے۔ سب سے پہلے تواسے اپنے ایمان پہ یقین ہونا چاہئے۔اسکے بعد، اسے ہرگز اپنے علم کی تکمیل سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیشہ بہتر ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔  جو علم حاصل کرنا ترک کرتے ہیں وہ نعمت الہی سے خود کو محروم کر دیتا ہے  اور اسکی تعلیم میں آپکو کوئی فائدہ نظر نہیں آئیگا۔ بے شک،  اسکی  سر پہ پگڑی پہننا، روزے رکھنا، نمازیں پڑھنا اور متقی ہونا بے معنی ہیں  اگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ نماز کی کس جگہ رکنا یا دہرانا ہے۔ ایک غافل شخص جو منظم نا ہو، ہمدرد نا ہو، مومن نہیں ہوسکتا۔ د نظم و ضبط اور مستقل مزاجی کے بغیر انسان ایمان کو اپنی روح میں نہیں بسا سکتا۔

 

تیرہواں لفظ

ایمان۔   خالق پر غیر متزلزل ایمان ہے، جسکے وجود کے بارے میں ہم نے اسکے پیغمبرﷺکی تعلیمات سے سیکھا ہے۔

 یقین کرنے کے دو طریقے ہیں۔کچھ لوگ ایمان کی حقیقت اور عقائد کی بنیاد پر اسے قبول کرتے ہیں اور اپنے عقائد کو مستحکم کرتے ہیں۔ ہم اس یقینی کو ایمان یا عقیدہ کہتے ہیں۔دوسرے لوگ کتابوں یا ملاوں کی باتوں سے حکمت حاصل کرتے ہیں۔   ایسے لوگوں کو ہزاروں فتنوں کا مقابلہ کرنے اور موت کیصورت  میں بھی متزلزل نہ ہونے کے لئے اپنے عقیدے اور روحانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ   تقلیدی یاروایتی  ایمان ہے۔اپنے دل میں ایمان رکھنے کے لئے ایک شخص کادل جرأت مند،ثابت قدم اور اپنی طاقتوں پر اعتماد ہونا چاہئے۔

لیکن ان لوگوں کا کیا کہ جن کو علم کی کمی ہے کہ وہ یقینی ایمان کے ماننے والوں میں سے ہیں،یا جن کا کوئی پختہ عقیدہ نہیں ہے، وہ بھی آسانی سے فتنوں اور کا شکار ہو جاتے ہیں،جو اپنے فائدے کے لئیسیاہ کو سفید،اور سفید کوسیاہکہتے ہیں  جو جھوٹ کو سچ کر کے آگے پہنچاتے ہیں، وہ تقلیدی ایمان والے نہیں ہو سکتے۔اللہ ہمیں ایسے لوگوں سے محفوظ رکھے!ہم میں سے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایمان نہیں ہو سکتا ہے۔ مرتدوں کوفضل الہی گنوانے کی ضرورت نہیں۔وہ نہ تو اللہ کی مغفرت اور نہ ہی نبیﷺ کی شفاعت کے مستحق ہیں۔لعنت ہو اس شخص پر جو جھوٹے محاوروں پر یقین رکھتا ہے: تلوار  قسم سے تیز تر ہے او ر  ایسا کوئی گناہ نہیں جسے اللہ معاف نہیں کرے گا۔

چو دہواں لفظ

کیا ایسان کے پاس دل سے قیمتی کوئی اور چیز ہے؟مضبوط دل کے آدمی کو لوگ بہادر سمجھ کر  احترام کرتے ہیں۔انکے دل میں اقدار کا ایک دھندلا سا خیا ل ہے۔ رحم، احسان، کسی اجنبی کے ساتھ اپنے  بھائیوں کی طرح سلوک کرنے کی صلاحیت اوران کیلئے ایسی خیرکواہی کی دعا جیسے وہ اپنے لئے چاہتا ہو۔  یہ سب دل کے احکمات ہیں۔اور اسی طرح دل سے محبت جنم لیتی ہے۔ دل کی کی آواز سننے  والی زبان کوئی جھوٹ نہیں بولے  گی۔صرف منافق ہی دل کے بارے میں بھول جاتے ہیں۔ پھر بھی  مضبوط دل والے یہ لوگ اکثر تعریف کے اہل نہیں  ہوتے۔ جب تک وہ اپنے نظریے میں اخلاق اور سا  لمیت کا احترام  کریں، برائی کو برا مانے،  بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست دکھائیں،  ہجوم کے پیچھے نا جائے جیسے بھیڑوں کے پیچھے ایک کمزور کتا ہوتا ہے،  جب تک کے وہ تمام مشکلات میں سچائی کا ساتھ دینے کیلئے کھڑے نہیں ہوتے،  اور آسانی میں بھی حقیقت سے منہ نا پھیریں، صرف تب ہی ان بہاد ر آدمیوں کے دلوں میں جو دل دھڑکتا ہے، وہ کسی بھیڑیے کا ہوتا ہے، انسان کا نہیں۔

بے شک قازق  بنی نوع انسان میں سے ہے۔  بہت سارے قازق راہ حق سے کسی وجہ کی کمی سے نہیں بھٹکے بلکہ ان کے دلوں میں دانش والی باتوں کو ماننے کی ہمت نہیں۔میں ان میں سے بہت سارے لوگوں کی استدلال نہیں مانتا کہ انہوں نے برائی اس لئے کی کہ وہ جانتے نہیں تھے۔  نہیں، وہ جانتے تھے،  لیکن ااپنی کمزور قوت ارادییت  کی وجہ سے وہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔  بہت کم مضبوط لوگ  ہونگے جو ایک ٹھوکر کھانے کے بعد سید ھے راستے پہ چلیں گے۔ وہ لوگ جن کو  بہادر اور سمجھدار سمجھا جاتا ہے، ایک دوسرے کو اندھیروں اور برے کاموں میں نہیں دھکیلیں گے۔ انکی اندھی تقلیدزیادہ تر انکی بدقسمتی کا سبب بنتی ہے۔  اگر کوئی شخص برائی کر کے اسے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے، خود کو اسکا ذمہ دار نہیں سمجھتا اور خود کو روکتا نہیں،  خدا کے سامنے اپنے گناہوں سے پاک ہونے کی یا اپنے ضمیر کو صاف کرنے کی کوشش نہیں کرتا،  اسکو کیسے بہادر کہا جاسکتا ہے۔ ایک اچھا سوال یہ ہو سکتا ہے کہ کیا اسکو مرد کہا جا سکتا ہے؟

 

پندرہواں لفظ

میں کیسے جیوں؟

کیا میں نے اپنے علم کو بڑھانیکے لئے، اپنی دنیاوی زندگی یا آخرت کیلئے کچھ کیا ہے؟

کیا مجھے آخر میں پچھتاوے کے کڑوے گھونٹ پینا پڑیں گے؟

ابائی کنان باوٗ

الفاظ کی کتاب،  پندرہویں لفظ سے اقتباس

 

میرے خیال میں،ذہین اور بیوقوف لوگوں میں ایکظاہری  فرق ہے۔

اس دنیا میں آکر،انسان اپنے آس پاس کی دلچسپ چیزوں کی طرف راغب اور پرجوش ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

تجسس اور دلچسپ، یہ دن انسان کی یادوں میں ہمیشہ روشن رہتی ہیں۔ ایک سمجھدار آدمی سنجیدہ معاملات میں دلچسپی لے گا۔ وہ مسلسل اپنے مقاصد کے حصول کی کوشش کریگا۔ یہاں تک کہ اسکے ماضی کی کاوشوں کو بھی بہت خوشی اور دل سے سنا جائیگا۔ ایسا شخص اپنی پوری زندگی کبھی نہیں پچھتائے گا۔

غیر سنجیدہ آدمی بیکار فضول اور مضحکہ خیز کاموں میں اپنا قت ضائع کر دیتا ہے۔جب اسے ہوش آتا ہے تب اس کے بہترین سال تیزی سے بیکار گزر چکے ہوتے ہیں،اور اسکے  پچھتاوے سے اسے کوئی تسلی نہیں ملتی۔جوانی کے دنوں میں وہ اس طرح برتاؤ کرتا ہے،جیسے جوانی ابدی ہے، کبھی ایسا نہیں سوچا کہ اس سے ذیادہ دلچسپ نعمتیں اسکے لئے محفوظ رکھی گئی ہیں۔ جلد ہی، وہ اپنی عمر اور طاقت کھونے کے بعد کسی کام کا نہیں رہتا۔  ایک اور فتنہ پرجوش جانوں کی راہ میں پڑی ہے۔ کامیابی، چاہے وہ انکے پاس وہ یا انکے ہاتھ میں، انکو حواس باختہ کردیتی ہے۔کامیابی کی چاہ انکے آنکھوں پہ پردہ ڈال دیتی ہے اور ان سے غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ ایسا آدمی اپنینا چاہتے ہوئے بھی لوگوں کی توجہ، باتوں اور مزاق کا مرکز بن جاتا ہے۔

معقول لوگ اپنی سوچ سنجیدہ موقع پہ بھی خود تک رکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہوش و حواس میں رہتے ہیں، صبر کا مظاہرہ دکھاتے ہیں اور اپنے جذبات پہ قابو رکھتے ہیں۔

لیکن ایک بے وقوف شخص کی مثال ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے۔ آسمان کی طرف آنکھیں ایسے اٹھاتا ہے جیسے کوئی پاگل ہو۔ وہ دوڑتا جاتا ہے اور اسے نہیں معلوم کہ اسکی چاپان کا کنارہ گھوڑے کے عقب کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

یہمیرا مشاہدہ ہے۔

اگر آپ عقل والوں  میں شمار ہونا چاہتے ہیں تودن میں، ہفتے میں یاکم سے کم مہینے میں ایک بارخود سے پوچھیں:

”میں کیسے جیوں؟

کیا میں نے اپنے علم کو بڑھانے کے لئے، اپنی دنیاوی زندگی یا آخرت کیلئے کچھ کیا ہے؟

کیا مجھے آخر میں پچھتاوے کے کڑوے گھونٹ پینا پڑیں گے؟“

یا شاید آپ جانتے ہی  نہیں یاآپکو  یادہی نہیں کہ آپ نے اپنی زندگی کیسے گزاری اور کیوں؟

سولہواں لفظ

قازق کو اس کی فکر نہیں ہے کہ آ یا اس کی نمازیں خدا کو قبول ہوتی ہیں یا نہیں۔وہ وہی کرتا ہے جو دوسرے لوگ کرتے ہیں:وہ اٹھتا ہے اور دعاکیلئے زمین پر گڑ پڑتا ہے۔وہ خدا کو  گویا یک سوداگر سمجھتے ہیں جو قرض لینے آیا ہے:”میرے پاس یہی ہے، لے لو اگر تمہیں چاہئیں، لیکن اگر تم نہیں لوگے تو مجھ سے ویسے ہی مویشی لینے کا نہ کہنا۔ قازق اپنے عقیدے کو سیکھنے اور اسے پاک کرنے کے لئے کوئی پریشانی نہیں اٹھائے گا:

”ٹھیک ہے، میں صرف اتنا جانتا ہوں،میں اس عمر میں اس سے زیادہ دانشمند نہیں ہو سکتا۔ اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ عبادت نہ کرنے پر مجھے ملامت نہیں کر سکتے ہیں۔اور اگر میری تقریر غیرمہذب ہے تو اس سے کوئیفرق نہیں پڑتا۔“ لیکن مجھے حیرت ہے کہ کیا اس کی زبان دوسرے لوگوں سے مختلف  بنائی گئی ہے؟

سترہواں لفظ

عزم، منطق   اورقلب نے ایک بار علم سے ان کا معاملہ طے کرنے کو کہا کہ ان میں سب سے اہم کون ہے۔

عزم نے کہا:”علم،آپ کو یہ تو معلوم ہوگا کہ میرے بغیر کچھ بھی کمال نہیں پا سکتا:اپنے آپ کو جاننے کے لئے،سیکھنے میں ثابت قدم رہنا پڑتا ہے،اور یہ میرے بغیر نا ممکن ہے،  صرف میری مدد سے ہی ایک شخص اعلی درجات تک پہنچ سکتا ہے  اور ان تھک کی عبادت کرسکتا ہے،دولت اور ہنر،احترام اور کامیابی حاصل کرسکتا ہے،کیا میں لوگوں کوغلط جذبات سے محفوظ نہیں رکھتا اور ان پر قابو نہیں رکھتا،کیا میں ان کو گناہ، حسد اور فتنوں سے بچانے میں محتاط نہیں کرتا،  کیا کسی بھی کھائی میں گرنے سے بچنے میں میں ان کی مدد نہیں کرتا؟  یہ دونوں مجھ سے کیسے بحث کر سکتے ہیں؟

 منطق نے کہا:”صرف میں یہ جاننے کی اہلیت رکھتا ہوں کہ کون سے الفاظ مفید ہیں اور کون سے  نقصان دہ،  چاہے وہ اس زندگی کی ہوں یا اگلی کی۔ میں تنہا آپ کی زبان کو سمجھ سکتا ہوں۔ میرے بغیرنہ تو کوئی برائی سے بچ سکتا ہے،نہ علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی خود کو فائدہپہنچا سکتا ہے۔   یہ دونوں مجھ سے کیسے بحث کر سکتے ہیں؟  میرے بغیر انکی کیا افادیت؟

قلب  نے کہا:”میں انسانی جسم کا مالک ہوں۔میں اس کے خون کا سرچشمہ ہوں اور روح مجھ میں بستی ہے، میرے بغیر زندگی ناقابل فہم ہے۔جو لوگ آرام والے بستر پر لیٹے ہوتے ہیں میں ان کو نیند سے محروم کر دیتا ہوں۔ میں انہیں کروٹیں لینے پہ مجبور کرتا  ہوں کہ وہ ا ن قحط زدہ،  ٹھٹرتے اور بے سہارا لوگوں کے بارے میں سوچیں جن کے سروں پر چھت نہیں ہے۔میں نوجوانوں کواپنے بزرگوں کی تعظیم اور چھوٹوں کے ساتھنر م  برتاوٗ کی تلقین کرتا ہوں۔ لیکن لوگ مجھے پاک رکھنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور اسلئے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ اگر مجھے پاک رکھا جاتا تو میں کسی میں تفریق نا کرتا۔میں اقدار  کی تعریف کرتا ہوں اور بغض اور تشدد کے خلاف بغاوت۔  خود اعتمادی، ضمیر، رحم،احسان،  مجھ سے ہی انکی شروعات ہوتی ہے۔ میرے بغیر ان دونوں کی اوقات ہی کیا ہے؟ مجھ سے بحث کرنے کی انکی ہمت کیسے ہوئی؟

 تینوں کی باتیں سن کر علم نے جواب دیا:

عزم،  آپ جو کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے  اور آپ کے پاس بہت سی دوسری خوبیاں ہیں جن کا آپ نے ذکر نہیں کیا۔آپ کے شراکت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔پھر بھی آپ اپنی طاقت کے برابر ظلم بھی  چھپائے ہوئے ہیں۔تم اچھائی کیلئے پرعزم ہو لیکن تم برائی کیلئے بھی اتنے ہی پر عزم ہو گے۔ یہ تمہاری خرابی ہے۔

 منطق، تم بھی ٹھیک کہہ رہے ہو۔ تمہارے بغیر بھی زندگی میں کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔”تمہاری مہربانی سے لوگ اپنے خالق کے بارے میں جانتے ہیں اور جہانوں کے راز افشاں کرتے ہیں۔ لیکن یہ آپ کے امکانات کی حد نہیں ہے۔مکاری اور زیادتی بھی تم ہی سے آتی ہے۔ اچھے اور برے لوگ تم پہ ہی منحصر ہیں اور تم دونوں کی پوری ایمانداری سیساتھ دیتے  ہو۔ یہ تمہاری غلطی ہے۔

میرا مقصد آپ سب کی صلح کرانا ہے۔اچھا ہوتا اگر دل اس تنازعہ میں ثالث ہوتا۔ تمہارے سامنے بہت سارے رستے ہیں منطق!لیکن دل ان سب پہ نہیں چل سکتا۔ یہ تمہارے اچھے کاموں سے خوش ہوگا اور خوشی سے تمہاری مدد کریگا، لیکن یہ برائی اور فساد میں تمھارا ساتھ نہیں دیگا۔ یہاں تک کہ یہ تم سے بیزار ہو جائیگا۔

اب، عزم!آپ کے پاس بہت توانائی اور ہمت ہے لیکن قلب آپکو بھی روک سکتا ہے۔یہتمہیں  کسی نیک کام سے نہیں روکے گا لیکن یہ تمہارے ہاتھ پیر باندھ لے گا اگر تمہارا  مقصد بیکار ہے اورغیراخلاقی ہوا۔ تمہیں دل سے ہاتھ ملانا چاہئے اور ہر چیز میں اس کی اطاعت کرنی چاہئے!اگر آپ تینوں  انسان کے اندرسکون سے رہیں،  تو اس کے پاؤں کی دھول اندھوں کی آنکھیں کھول دیں گی۔اگر آپ دونوں کسی اتفاق رائے پرنہیں پہنچتے  تو میں قلب کو ترجیح دوں گا۔ سب سے بڑھ کر انسانیت کی قدر کریں۔ خدا اسی پہ ہمارا فیصلہ کریگا۔ یہ مقدس کتاب میں لکھا ہو اہے، علم نے کہا۔

 

اٹھارہواں لفظ

انسان کوعاجزانہ اور  صاف ستھرا لباس اپنانا چاہئے۔ ایک بیوقوف بندہ ہی اپنے لباس پہ اپنی اوقات سے زیادہ خرچ کرتا ہے اور اپنی ظاہر کے بارے میں پریشان رہتاہے۔ یہ مختلف طریقوں سے دکھاوا کرتے ہیں۔ کوئی اپنے چہرے کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہے،  مونچھیں اور داڑھی رکھتا ہے۔ اپنے جسم کا خیال رکھتا ہے اور اکڑکر چلتا ہے۔ اپنے  بھنویں غرور سے اٹھائے گا۔ وہ اپنے مغرور انداز میں کھڑا رہے گا۔  کوئی اور خود کو سادہ لو ظاہر کرنے کیلئے بناوٹی لاپرواہی دکھائے گا۔ اپنے عربی گھوڑے اور شاندار لباس میں گزرتے ہوئے اشارے دے گا۔

 ”او!  کچھ خاص نہیں! “  وہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لئے اپنے راستے نکل  پڑتا ہے۔ اپنے برابر کے لوگوں میں حسد اور اپنے سے کم تر کیلئے عیش عشرت کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ 

وہ اس کے بارے میں کہتے ہیں:”ایسے  گھوڑے اور ایسے  کپڑوں کیساتھ اسے کس چیز کی شکایت!“

لیکن یہ مضحکہ خیز اور شرمناک ہے۔

کسی کو بھی اس طرح کی احمقانہ  چیز کا نشانہ نہیں بننا چاہئے،بصورت دیگر اسے عام انسان کی طرح دکھنا دشوار ہوجائے گا۔

کربز کے لفظ میں میں نے لفظ کیر(احمقانہ) کردن(گھمنڈ) کے ساتھ ایک رشتہ قائم کیا ہے۔یہ ایسی برائی ہے جس سے لوگوں کوخبردار کرنا چاہئے۔ انسان کو اپنی عقل،عزم ،ضمیر اور بھلائی کی بنا پر اپنی شناخت کرنی چاہئے۔صرف ایک بیوقوف ہی سوچتا ہے کہ وہ دوسرے طریقوں سے بھی امتیاز حاصل کر سکتا ہے۔

انیسواں لفظ

بچہ سوچ سمجھ کی صلاحیت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ یہ صرف سننے اور دیکھنے سے، چھونے اور چھکنے سے جانتا ہے کہ  کیا اچھا ہے اور کیا برا۔بچہ جتنا زیادہ دیکھتا اور سنتا ہے،اتنا ہی زیاد ہ جانتا  ہے۔

ؑعقل مند لوگوں کو سننے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف دماغ کا ہونا ہی کافی نہیں۔ علم والوں کی باتیں سن کے، یاد کر کے اور برائیوں سے بچ کے ہی ایک مکمل انسان بنتا ہے۔

لیکن اگر کوئی دانشمندانہ باتیں  زیادہ دل لگا کے سنے یا اس کے برعکس،بہت کم توجہسے،  وضاحت مانگے بغیر،  اس معاملے کے تہہ تک پہنچنے کیلئے  یا خود ہی کوئی نتیجہ اخذکرنے کیلئے،  یہاں تک کہ انکو عقلمندوں  کی باتیں دانش والی محسوس ہوتی ہیں، لیکن ایسے سننے کا کیا فائدہ؟

 حالانکہ کسی کو عقل محسوس ہو سکتی ہے۔اور اتنے اچھے مشوروں کا انصاف سننے کا کیا فائدہ؟

آپ ایسے شخص سے کیا بات کر سکتے ہیں جو الفاظ کی قدرہی نہیں جانتا ہو؟

جیسا کہ ایک عقلمند  نے کہا: بہتر ہے کہ آپ اس سور کی طرف توجہ دیں جو آپ کو پہچانتا ہے...

 

بیسواں لفظ

ہم سب جانتے ہیں:تقدیر پر کوئی چیز قادر نہیں۔ تکمیل کا احساس انسان کی خاصیت ہے۔  یہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ تقدیر کا لکھا  ہوتا ہے۔ایک بار اگر کسی نے مکمل ہونے کا مزہ لیا پھر اس سے نجات ممکن نہیں۔

اگر آپ کوشش کر کے اس سے نجات پاتے بھی ہیں تو یہ آپکا تعاقب کر کے مغلوب ہوگا۔

بہت سی چیزیں اطمینان اور شکست کا سبب بنتی ہیں۔

انسان کو مطمئن کرنے کیلئے کوئی کم یا زیادہ چیزیں نہیں۔: کھانا،تفریح،فیشن،عید اور تقریبات،  دوسروں پر فضیلت حاصل کرنے کی خواہش او خواتین۔

جلد ہی  یا دیر سے ،غرور اورپاگل پن دریافت کرنے پر،وہ مایوس کن اور لا تعلق ہو جائے گا۔اس دنیا کی ہر چیز کی طرح،انسان کی زندگی اور اس کا مقدر بدلتے ہیں۔ زمین پرکوئی جاندار مخلوق پرسکون نہیں رہ سکتا۔ تو احساسات کی مستقل مزاجی کہاں سے آسکتی ہے؟

اطمینان کو عقلمند لوگ،جو کمال پانے کی کوشش کرتے ہیں،  ڈھوندتے ہیں۔ جو بہت سی چیزوں کی قدروقیمت جانتے ہیں،  کفایت شعار ہیں اور  انسانی وجود کی باطل چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں۔

وہ جس کو دنیاوی خوشیوں کی عبوری فطرت کا ادراک ہو گیا ہے وہ زندگی سے تھک جاتا ہے۔

مجھے لگتا ہے کہبیوقوف اور  او لاپرواہ خوش قسمت ہیں۔

 

اکیسواں لفظ

تھوڑی سی دنیاوی اطمینان سے بچنا مشکل ہے۔ میں نے دو اقسام کی شناخت کی ہے: فخر اور گھمنڈ۔

ایک قابل فخر آدمی کو اپنی خوبی کا زیادہ اندازہ ہوتا ہے۔وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے پوری کوشش کریگا کہ اسے ایک جاہل او ر نا قابل اعتماد شخص نہ سمجھا جائے جو اپنے وعدوں پرپورا نہیں اترتا، بدتمیز،  متکبر اور بے شرم جھوٹا،تنقید کرنے والا اور دھوکہ باز۔  وہ ان برائیوں کی بے بنیادی سے واقف ہے،وہ ان سے بالاتر رہنے کی خواہشرکھتا ہے۔یہصرف باضمیر،معقول اور اعلی ذہنیت والے آدمی کی خاصیت  ہے۔وہ لوگوں سے اپنی  تعریفیں سننا  پسند نہیں کرتا  لیکن دوسری طرف،کسی کو بھی اپنا نام اچھالنے نہیں  دے گا۔

دوسری طرف ایک گھمنڈ جتنا ممکن ہو باتیں کرتا ہے کہ لوگوں کو بتائے کہ وہ بہادر، امیر اور اعلی خاندان سے ہے۔ پھر بھی وہ اس چیز کو نظر انداز کردیتا ہے کہ لوگ اسکے بارے میں ایسی باتیں کہہ سکتے ہیں جو وہ کبھی نہیں سننا چاہے گا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بدنامی والی شہرت اسے پریشان نہیں کرتی۔ اس طرح کیمغرور لوگ  عام طور پر تین قسم کی ہوتے ہیں۔

پہلا،  بیرون ملک غیر ملکیوں میں شہرت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے۔ یہ ایک جاہل ہے، لیکن پھر بھی وہ کچھ انسانی اقدار رکھتا ہے۔

دوسرا اپنے ہی قبیلے میں مشہور ہونا چاہتا ہے۔ یہ ایک مکمل جاہل اور کمتر انسان کی قسم ہے۔تیسرا شخص اپنے خاندان یا اپنے آبائی گاؤں میں دکھاوا کریگا،کیونکہ کوئیباہر کا شخص اس کی گھمنڈ کو کبھی نہیں مانے گا۔یہ  سب سے زیادہ لا علم ہے،اب یہ آدمی نہیں۔

جو شخص اجنبیوں میں مشہور ہونے  کے لئے کوشاں ہے وہ اپنے قبیلے میں خود کو الگ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔جو شخص اپنے قبیلے میں مشہور ہونے کا خواہاں ہے وہ اپنے قریب ترین افراد کی تعریف  کے لئے جدوجہد کرے گا۔اور جو اپنے خاندان میں مشہور ہونا چاہتا ہے وہ   اپنی تعریفیں بیان کر کے وہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کریگا۔

 

بائیسواں لفظ

میں حیران ہوں کہ اس دور میں قازقستان میں میں کس سے ممکنہ طور پر پیار یا احترام کر سکتا ہوں۔

میں عہدیداران کا احترام کرتا،لیکن کوئی بھی حقیقیعہدیدار نہیں ہے۔یہاں تک کہ اگرکوئی ایک ہے بھی تو وہ اپنی مرضی کا مالک نہیں ہے۔ کچھ لوگوں سے دشمنی پر،محتاط ہو کے،وہ اپنے مویشیوں کو دوسروں کے حوالے کر دے گا اور بالآخر اسیکڑوں لوگوں کا مقروض ہو جائیگا۔اپنی احمقانہ سوچ میں سمجھتا ہے کہ انکی عاجزانہ درخواستوں کا جواب اس نے سخاوت سے دیا، لیکن اصل میں وہ اب ان پہ منحصر ہو گیا ہے۔ آپ اسےنہ تو فراخ دل اور نہ ہی رحمدل کہیں گے۔ اپنی آبائی سر زمین میں وہ اپنے ہی لوگوں میں جدوجہد کرتا ہے، اپنی ہی دولت کو ضائع کرتا ہے اور نا اہل افراد کے ساتھ احسان مند ہوتا ہے۔

جب عہدیداران بیوقوف ہوتے ہیں توہر طرح کے بدمعاش نمودار ہوتے ہیں، وہ عہدیداروں کودھمکاکے رہتے  ہیں۔ 

میں مرزا کا احترام کرتا،لیکن اب  ایسے شرفاء ڈھونڈنامشکل ہے۔جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اپنے مویشیوں کوادھر اادھر چھوڑدیتے ہیں،وہ آوارہ کتوں کی طرح بہت سارے ہیں۔

کچھ لوگ اپنا تھوڑے سے فائدے کیلئے اپنے مویشی دے دیتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسا کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ یہ سب ایسا صرف مرزا کا رتبہ حاصل کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ادھر ادھرایسے  بھاگتے ہیں جیسے ان کی پشت پر نمک لگی ہو۔۔لیکن اکثر اوقات وہ ظالم لوگوں کا شکار بن جاتے ہیں۔

میں ان عہدیداران کا احترام کرتا لیکن ان کی زمین پہ نا  تو انسان کا قانون ہے اور نا ہی خدا کا۔خوشامد یا پیسوں سے حاصل کی ہوئی طاقت زیادہ معنی نہیں رکھتی۔

میں ایک طاقتور آدمی کا احترام ضرور کرتا،لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو برے کام کی تقویت حاصل ہیلیکن کوئی بھی نیکی کرنے کو تیار نہیں۔

کاش مجھے عزت کرنے کیلئے کوئی عقلمند آدمی مل جائے۔اس کے باوجود بھی، کوئی اپنی  ذہانت کو ضمیر اور انصاف کی خدمت کے لئے استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں،جبکہ چالاکی ومکاری  اور دھوکہ دہی میں سب سے آگے ہونگے۔

میں نے ایک کمزور بھکاری کا احترام کیا ہوگا، لیکن وہ بھی بے گناہ نہیں۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ جھکے ہوئے  اونٹ کی پشت پربھی نہیں چڑھ سکتا۔اگر اس میں طاقت ہوتی تویہ بھی کوئی مہارت سیکھ کے ادھر ادھرسے چوری کرتا۔کون رہ گیا ہے؟  مکار لوگ! یہ اس وقت تک دوسرں کونہیں چھوڑتے جب تک ان کو بربادنہ کر دیں۔ 

 پھر،ہم کس سے پیار کریں گے اور کس کے لئے دعا مانگیں؟  بے ایمان عہدیداران تو نہیں۔

صرف امن پسندعہدیدار ہی رہ گیا ہے، جو اپنی عاجزیکیساتھ، اس قول پر چلتا ہے:”اگر تم خوشحال ہونا چاہتے ہو تو،تکرار سے بچو!“  اس طرح کے آدمی سے سب ناراضہوتے ہیں، اگر چہ وہ چوروں اور ڈاکوؤں سے بچنے کیلئے اپنی عادی دولت بانٹ دیتا ہے۔

 کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہے:ہمیں اسی پر ترس کھانا چاہیئے اور اسی کیلئے دعا کرنا چاہیئے۔

ابھی تک،مجھے کوئی اور نہیں ملا ہے۔

 

تائیسواں لفظ

 

ایک احمق کو تسلی دینے کی کیا ضرورت جبکہ وہ ہزاروں بیوقوفوں کے درمیان ہو؟

ابائی کنان باوٗ

الفاظ کی کتاب سے اقتباس

خوشی اور سکون کے علاوہ قازقستان پہ ہر چیز لعنت بن کے لٹکی ہوئی ہے۔

وہ خوش ہوتا ہے جب کسی ظالم سے ملتا ہے یا ظلم دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ”اللہ ہمیں اس سے بچائے!  اسکے مطابق وہ ایک معزز شخص ہے اور اسکے مقابلے میں دوسرے بچوں کیطرح پاک ہیں۔“  لیکن کیا اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ اس طرح کے آدمی سے بہتر ہونا ہی کافی ہے؟  یا چالاک لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ان کو برے لوگوں  میں شمار نہیں کیا جائیگا اگر وہ ان لوگوں کو ڈھونڈ لیں جو ان سے زیادہ  ظالم اور جابر ہوں۔ لیکن کیا بدکاروں کے ساتھ اپنا موازنہ کر نے سے تم اچھیبن جاؤ گے؟  اچھائی اچھے لوگوں سے سیکھی جاتی ہے۔ کسی دوڑ میں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنے کی سمجھ آتی  ہے کہ کتنے کھلاڑی آپ سے آگے ہیں،لیکن یہ  نہیں کہ کتنے تیز گھوڑے پیچھے ہیں۔کیا اس سے ہارنے والے کو زیادہ خوشی ہوتی ہے اگر اس کے پیچھے پانچ  دس عربی گھوڑے تھے؟

 اب، قازق کس چیز میں سکون ڈھونڈے؟وہ کہتے ہیں:

”صرف ہم اس طرح نہیں ،ہر کوئی یہ کام کرتا ہے۔ اکثریت کیساتھ کھڑا رہنا،  تنہا کھڑے ہونے سے بہتر ہے۔ ایک دعوت جس میں سب شامل ہوں، سب سے بڑی دعوت ہوتی ہے۔“

لیکن کیااللہ نے اسے صرف ایک ہجوم کے بیچ رہنے کی ہدایت کی؟اور کیا اللہ کثرت پر قدرت نہیں رکھتا؟ کیا اوپر والے کے پاس اس ہجوم کو بیڑیاں پہنانے کیلئے زنجیریں نہیں ہیں۔ کیا ہر شخص اعلی ترین علم حاصل کر سکتا ہے، یا صرف چند منتخب لوگوں کو ہی علم کی  رسائی ہے؟ کیا تمام افراد یکساں طور پربا صلاحیت ہیں یا ہزاروں میں سے کوئی ایک؟کون کہتا ہے کہ کثرت کوٹھیک نہیں کیا جا سکتا؟اگر لوگ بیماریوں کاشکارہوتے ہیں، تو کیا اچھا نہیں اگر ان میں سے آدھے صحت مند  رہیں؟کیا آپکو ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں جو اس زمین کے جھوٹ سے واقف ہوں اور اس کی کمی کا شکار  ہزار وں لوگ صحرا میں بھٹک رہے ہیں؟

مسافر کے لئیکیا بہتر ہے: اسکے سارے گھوڑے ا یک ہی مرتبہ میں بھوک سے مر جائیں یاپھر ان میں سے آدھے؟  کیا بہتر ہوگا! اگر سارے لوگ بھوک کی بیماری سے مر جائیں یا پھرکم سے کم آدھے بچ جائیں؟ ایک احمق کو تسلی دینے کی کیا ضرورت جبکہ وہ ہزاروں بیوقوفوں کے درمیان ہو؟

 کیاایک دلہا اپنی مطلوبہ دلہن کو پا سکتا ہے اگر   اسے یہ بتادے کہ اس کے پورے خاندان کو بدبودار سانس کی بیماری ہے؟  کیا اسکی دلہن کو اس خیال سے سکون ملے گا کہ وہ واحد نہیں ہے؟

چوبیسواں لفظ

ان کا کہنا ہے کہ  زمین پر دوارب سے زیادہ افراد آباد ہیں۔ قازقستان کی آبادی  بیس لاکھ سے زیادہ ہے۔

قازق دولت کی خواہش اور علم کی جستجو میں،فن کی قدر دانی،اپنی دوستی میں اور طاقت کا مظاہرہ کرنے میں،اور غروریا دشمنی میں دوسرے لوگوں سیبالکل مختلف ہیں۔

 اپنے پڑوسی کے پلک جھپکتے ساتھ ہی،  ہم ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہیں،ایک دوسرے کو برباد کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی جاسوسی کرتے ہیں۔

دنیا میں ۰۳ لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر ہیں۔ایسے لوگ ہیں جو پوری دنیاکا تین بار سفر کر چکے ہیں۔کیا ہم واقعتا اسی طرح زندگیجیتے رہیں گے،ایک دوسرے کے انتظار میں،زمین کے سب سے زیادہ مطلب پرست لوگ بن کر؟یا کیا ہم خوشی کے دن دیکھیں گے جب لوگ ایماندرانہ طریقے سے اپنا دولت کمانا سیکھیں گے،جب لوگ چوری،دھوکہ دہی،پشت پناہی اور دشمنیاں بھول جاجائیں گے اور علم اور ہنر کی طرف راغب ہو ں گے؟مجھے شک ہے کہ ایسے دن کبھی نہیں آئیں گے۔آج کل،ایک سو مویشیوں کیلئے دو سو افراد کی قربانی کیلئے تیارہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کے یہ لوگ اس دوڑ میں ایک دوسرے کو برباد کر یں، کیا یہ لوگ کبھی امن سے رہ پائیں گے۔

 

پچیسواں لفظ

 دوسری قوموں کی زبان اور ثقافت کا مطالعہ کرنے سے آپ ان کے برابری میں آجاتے ہواور آپکو انکی درخواستیں نہیں کرنی پڑتی۔

الفاظ کی کتاب سے ا قتباس

ابائی کنان باوٗ

ہمیں سیکھنا چاہئیے۔ وہ سب جو دوسروں کو آتا ہے تاکہ ہم  انکے برابر بنیں اور اپنے لوگوں کے لئے ایک ستون اور ڈھال بن سکیں۔

الفاظ کی کتاب سے ا قتباس

ابائی کنان باوٗ

 

اچھا ہوگا اگر قازقستان کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں۔شروع کرنے کے لئے،ان کو ترکی کے خطوط سکھانا کا فی ہوگا۔اس کے باوجود ہماری غیر مہذب  سر زمین ہے کہ اپنے بچوں کو اسکول بیھجنے سے پہلے ہمیں دولت حاصل کرنا ہوگی؛ اس کے علاوہ انہیں فارسی اور عربی بھی سیکھنا چاہئے۔لیکن کیا جو بھوکے ہیں وہ وسیع النظری دکھاسکتے ہیں،عزت کی پرواہ کر یں اور سیکھنے میں دلچسپیکا مظاہرہ کریں۔قبائل اور خاندان میں غربت اور جھگڑے،چوری، تشدد اور لالچ کو جنم دیتے ہیں۔اگر آپ کے پاس مویشی ہیں تو آپ کا پیٹ بھر ا رہے گا۔علم اور ہنر کی آرزو اگلاقدم ہو گا۔تب لوگ تعلیم حاصل کرنے اور کم سے کم اپنے بچوں کو کچھ پڑھانے کے بارے میں سوچنا شروع کریں گے۔

ہرکسی کو روسی لکھنا اورپڑھناآنا چاہئے۔روسی زبان روحانی دولت اور علم،فنون لطیفہ اور بہت سارے دوسرے خزانوں کیچابی ہے۔اگر ہم روسیوں کی کامیابی کو اپناتے ہوئے ان کے برائیوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی زبان سیکھنا چاہئے اور ان کی اسکالر شپ اور سائنس کا مطالعہ کرنا چاہئے،کیوں کہ روسیوں نے   غیر ملکی زبانیں اور عالمی ثقافت کوسیکھ کے ہی یہ حیثیت حاصل کی ہے۔ روسیوں نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ دوسری قوموں کی زبان اور ثقافت کا مطالعہ کرنے سے آپ ان کے برابری میں آجاتے ہواور آپکو انکی درخواستیں نہیں کرنی پڑتی۔

روشن خیالی دین کے لئے بھی مفید ہے۔وہ جو اپنی زندگی خوشامد ہیں گزارتا ہے وہ اپنے ماں باپ کو بھی بیچ ڈالے۔ وہ اپنے کسی بڑے سے تپکی لینے کیلئے اپنے اہل وعیال، ضمیر اور عقیدے کو بھی بیچ ڈالے گا۔ کچھ ساتھی تو ایسے جھکتے ہیں کہ انکو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ وہ پیچھے سے ننگے دکھائی دے رہیں ہیں۔ اور یہ سب صرف ایکعہدیدار کی مسکراہٹ کیلئے۔

روسیتعلیم اور ثقافت عالمی ورثہ کی کنجیہیں۔جو اس چابی کا مالکہوگا وہ تھوڑی کوشش کے ساتھ باقی سب حاصل کر لے گا۔کچھ قازق اپنے بچوں کو روسی سکولوں میں اس لئے پڑھاتے ہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے لڑنے پر اپنے بچوں کی خواندگی کو اپنی برتری کے ثبوت طورپر استعمال کر سکیں۔ یہ آپ کا محرک نہیں ہونا چاہئے۔اپنے بچوں کو دیانتداری اور بامقصد کام سے اپنی روزی کمانے کا درس دیں، اور دوسرے لوگوں کیلئے مثال بنیں۔ تب ہی ہم روسیوں کے طریقوں کی پیروی  نہیں کریں گے،کیونکہ ان کا کوئی بھی قانون کسی کیلئے یکساں نہیں ہے۔ہمیں سیکھنا چاہئیے۔ وہ سب جو دوسروں کو آتا ہے تاکہ ہم  انکے برابر بنیں اور اپنے لوگوں کے لئے ایک ستون اور ڈھال بن سکیں۔ابھی تک ان نوجوانوں میں کوئی قابل ذکر سامنے نہیں آئے جنھوں نے روسی تعلیم حاصل کی ہولیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے والدین اور رشتہ داروں نے انہیں خراب اور گمراہ کیا۔پھر بھی،،وہ ان س کہیں بہتر ہیں جنہوں نے بالکل تعلیم حاصل نہیں کی۔  افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی ساری تعلیم دوسرے لوگوں کے ترجمانی کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔  بھلے لوگ بہت کم ہی اپنے بچوں کو سکول بھیجتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ غریب کے بچوں کو روسی اساتذہ سے رسوا  کرنے کے لئے بھیج دیں گے۔ لیکن یہ بد قسمت لوگ وہاں کیا سیکھ سکتے ہیں؟

اپنے رشتہ داروں سے جھگڑا کرتے ہوئے،کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی توہین کرنے کی بجائے،میں اپنے بیٹے کو نوکری  پر بھیج دیتا اور اپنے بالوں اور داڑھی بڑھنے دیتا!ایسے لوگوں کونہ تو خداکی  سزاکا کوئی خوف ہے اور نہ ہی انکو کسی   شرم کا احساس۔ ایسے شخص کی اولادسکول جا کے بھی کیا حاصل کرے گی؟کیا وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائے گا؟ کیا وہ دوسروں سے آگے بڑھ پائیگا؟ وہ سیکھنے کو ترجیحنہیں دیتا:  وہ اسکول جاتا ہے، تھوری دیر بیٹھتا ہے اور پھر وہاں سے چلا جاتاہے۔ سیکھنے کی کوئی خواہش یا مشقت کی علامت نہیں!اسکا باپ مشکل سے ہی اپنے بیٹے کی تعلیم حاصل کرنے پر راضی ہوتا ہے، جب تک کہ کوئی دوسرا اسکا خرچہ نہ اٹھائے۔کیا ایسا شخص اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے اپنے دولت جانے دے گا؟

آپ کے لئے ایک مشوریہے کہ: آپ کو اپنے بیٹے کے لئے نہ تو بیوی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسیکیلئیدولت چھوڑنے کی،لیکن آپ کو اسے ہر صورت  روسی تعلیم دینا چاہئے،یہاں تک کہ اگرآپ کو اپنی ساری کمائی بھی لگانی پڑی۔ یہ کسی بھی قربانی کے قابل ہے۔اگر آپ میں خدا کا خوف اور کوئی شرم ہو اور اگر تم چاہتے ہو تمھارا بیٹا ایک اچھاآدمی بنے تو اسے سکول بھیجو! اخراجات پہ غم زدہ نہ ہو۔اگر وہ ایک ان پڑھ اور بے ایمان شخص بنا تو فائدہ کس کا ہوگا؟ کیا وہ آپ کے لئے باعث سکون ہو گا؟کیا وہ خود خوش ہو گا؟اور کیا وہ اپنے ہی لوگوں کے لئے کوئی بھلائی کر سکے گا؟

 

چھبیسواں لفظ

قازق بہت خوش ہوتا ہے اگر اس کا گھوڑا جیت جاتا ہے،  اگر کوئی پہلوان جس پہ اس نے بولی لگائی ہو، جیت جائے،  یا پھر اسکا کتا یا عقاب نشانے کااچھی طرح تعاقب کرے۔  مجھے حیرت ہے کہ کیا زندگی میں کوئی اور چیز ہے جو اسے یادہ خوشی دے؟مجھییقین نہیں!  کسطرح ایک جانور کا دوسرے جانور کو چستی اور رفتار میں ایک دوسرے پر سبقت یا ایک پہلوان کا دوسرے کو زمین پر گرانا خوشی کا باعث ہو سکتا ہے۔

نہ تو یہ اس بندے کی اور نہ ہی اسکی اولاد کی کامیابی ہے۔بے مقصد چیزوں پہ خوش ہو کے اپنے پڑوسیوں کو ناراض کرتا ہے اور ان کو حسد محسوس کرانا چاہتا ہے۔ سچ میں، قازق کا کوئی اور بڑا دشمن نہیں ہو سکتا مگر ایک دوسرا قازق۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ جان بوجھ کر حسد بھڑکانہ  شریعی قوانین،اپنی ذاتی مفادات اورمنطق  کے منافی ہے۔ دوسرے لوگوں کی دشمنی کو بھڑکانے سے قازق کو کیا راحت حاصل ہے؟دوسرے لوگوں کی دشمنی کو بھڑکانے سے قازق کو کیا راحت حاصل ہوتی ہے؟اسے کیوں لطف آتا ہے؟ لوگ دوسروں کی کامیا بی سے خوفزدہ ہو تے ہیں اور اپنے آپ کو ذلیل وخوار سمجھتے ہیں۔

گاؤں میں اب تیز گھوڑے پائے جاتے ہیں، یہاں پہ ایک یا دوسرے آدمی کے پاس کتا یا عقاب کا ہونا فائدہ مند ہوتا ہے۔ اور تمام مضبوط لوگوں کا تعلق ایک ہی گاؤں سے نہیں ہوتا۔ یہ ساری خصوصیات انسان کی خود سیکھی ہوئی نہیں ہیں۔ وہ جو پہلے آئے اور ایک بار فاتح ہوئے،وہ ہمیشہ کے لئے تیز اور مضبوط نہیں رہیں گے۔پھر،کیوں یہ جانتے ہوئے، لوگ اتنے گھبرا ئے ہیں جیسے ان کی کوئی تاریکیمنصوبہ یا ناپاک حرکت سامنے آئے گی؟ انکو ایسی تکلیف کیوں ہے جیسے انکی تذلیل کی گئی ہو؟

اس کی وجہ تلاش کرنا مشکل نہیں ہے:جاہل لوگ کسی معمولی اور بے وقوف بات پر خوشی منائیں گے۔ان کے دماغ خوشی کے نشے میں وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر شرم محسوس کرتے ہیں جو شرمناک نہیں، لیکن انتہائی شرمندگی کی صورت میں بے شرمی کا  برتاؤ کرتے ہیں۔

یہ جاہلیت اور لاپرواہی کے نشانیاں ہیں۔  اگر آپ یہ بات کسی قازق کو کہیں گے تووہ سن کر   اس پر اتفاق کرے گا:”ہا ں یہ سچ ہے!“لیکن آپ کو اس کے الفاظ پہ بھروسہ  نہیں کرنا چاہئے۔وہ بھی اکثریت کی طرح ہے۔اگرچہ وہ یہ سب دیکھتا اور سمجھتا ہے، لیکن وہ ایک ضدی جانور کی طرح ہے جو اپنے غلط طریقے  ترک نہیں کرتا۔اور کوئی بھی اسے روکنے یااسے ہوش میں نہیں لا سکے گا۔اپنے قانون کو غلط بنانے  کے بعد،وہ ان کو کبھی ترک نہیں کرے گا۔صرف خوف یا موت ہی اسے اپنی بر عادات سے باز رکھ سکتا ہے۔

آپ کو یہاں کسی ایسے شخصنہیں ملے  گا جو اپن غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی تصحیح کی کوشش کرے۔

 

 ستائیسواں لفظ

یہاں سقراط کے قول   قادر مطلق خالق کی خدمت کرنے کے بارے میں ہیں جو انہوں نے اپنے شاگرد ارسطو کو بولے، جو کے مومنوں کا مذاق اڑاتا تھا۔

”اچھا،ارسطو، کیاتمہیں کو لگتا ہ کہ دنیا میں ایسے لوگ ہیں جنکی تخلیقات قابل تعریف ہیں؟“

بہت سارے ہیں،  ”استادمحترم“۔ ارسطو نے جواب دیا۔

”ان میں سے کسی ایک کا نام بتاؤ۔“

”میں ہومر اور ان کی رزمیہ نظمیں، سو فکلز کے سانحات، کچھ لوگوں کی دوسری شکلوں میں دوبارہ جنم لینے کی صلاحیت کی تعریف کرتا ہوں۔ میں زیوکس کی پینٹنگز کی بھی تعریف کرتا ہوں“ (یہا ں ارسطو نے متعدد

عظیم لوگوں کے نام بیان کیے)۔

”آپ کے نزدیک کون زیادہ تعریف کے لائق ہے: جو انسان کی بے جان تصویر پیدا بناتاہے، یا خدا تعلی، جس نے انسان کو استدلال اور زندہ روح س نوازا؟“

یقینا آخری والا۔ لیکن صرف اس صورت میں جب اس کی تخلیقات استدلال کی تخلیق ہوں نہ کہ امکان یا اتفاقکی۔“

”دنیامیں بہت سی کارآمد چیزیں ہیں۔بعض کا مقصد واضح ہے، جبکہ دوسروں کے مقصد کو ان کی ظاہری شکل سے الگ نہیں کیا جا سکتاتمہیں کیا لگتا ہے کہ: ان میں س کون سیمنطق سے پیدا ہوئی اور کون سی اتفاق سے؟“

”یقینی طور پر،جن چیزوں کا مقصد واضح ہے انکو منطق کی بنا ء پر تخلیق کیا گیا ہے،“ ارسطو نے جواب دیا۔

صحیح۔ انسان کو تخلیق کرتے ہوئے،خدا نے اس پانچ حواس سے نوازا، یہ جانتے ہوئے کہ انسان کو انکی  ضرورت ہو گی۔اس نے اسے دنیا کی خوبصورتی دیکھنے اور لطف اٹھانے کے لئے اسے آنکھیں دیں۔اس نے آنکھیں کھولنے اور بند کرنے کے لئے پلکیں دیں،آنکھوں کو ہوا اوردھول سے بچانے کے لئے پلکوں،اور پیشانی کے پسینے سے بچانے کے لئے بھنویں۔

”سقراط نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،  کانوں کے بغیر ہم سخت اور میٹھی آوازیں نہ سن پاتے، اور ہم گانے اور موسیقی سے لطف اندوز ہونے سے قاصر ہوتے۔ناک کے بغیر،ہم مختلف خوشبوؤں میں فرق کرنے سے قاصر ہوتے،ہم کبھی بھی  خوشبوؤں کیطرف راغب نہیں ہوتے اور بدبودار چیزوں سے دور نہیں ہوتے۔زبان اور منہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم کبھی نہ کڑوے کو میٹھی سے الگ نہ کر پاتے،اور نہ ہی  سخت کو  نرم سے۔

”ہماری آنکھیں اور ناک منہ کے قریب ہیں تا کہ ہم جو کھا رہے ہو اسے دیکھ سکیں اور سونگھ سکیں۔دوسرے ضروری اعضا ء  کو  پاک اعضاء سے،  جو سر پر ہیں،  دور رکھا گیا ہے۔

”کیا یہ اس بات کی تصدیق نہیں کہ خدا نے ہمیں سوچ سمجھ کے ساتھ پیدا کیا ؟“

تھوڑی دیر کی غور و فکرکے بعد،ارسطو نے اعتراف کیا کہ خالق واقعتا اقدرت رکھتا ہے، اور اس نے اپنے کام کو بڑے پیار سے تکمیل کیا۔

سقراط نے کہا، پھر مجھے بتاؤ کہ ہر  جاندار کو اپنی اولاد سیمحبت  کیوں ہے، وہ موت سے کیوں نفرت کرتا ہے اور جب تک ممکن ہو زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی نسل بڑھانے کی فکر کیوں ہے اسے؟ تمام جاندار وں کو  زندگی اور اس کے تسلسل کے  مقصد کے لئے تخلیق کیا گیا ہے۔ کیا یہخدا کی محبت نہیں کہ  انھیں زندگی سے پیار کرنے اور زندگی دینے کے قابل بنا یا ہے؟

 ارسطو!،آپ کیسے یقین کر سکتے ہیں،کہ کوئی شخص،اپنے آپ کو بچانے کی وجہ نہیں رکھ سکتا ہے؟“سقراط نے مزید کہا،’کیا انسانی جسم اس زمین سے مما ثلت نہیں رکھتا جس پر انسان چہل قدمی کرتا ہے؟کیا آپ کے جسم کا پانی زمینی پانی کا ایک قطرے کے برابر نہیں؟ آپ کی منطق کہا ں سے آتی ہے؟  اس کیحقیقت جو بھی ہے،  یہ اس کی عطا کردہ روح کی بدولت ہے کہ آپ اس اعلی ذہانت کا مسکن ہیں۔آپ کو قانون کی کمال،کاملیت اور ہم آہنگی کا پت چلتا ہے جس کے تحت فطرت تخلیق ہوئی ہے،آپ دیکھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں،لیکن آپ جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اس کو سمجھ نہیں سکتے۔”اب آپ کا کیا خیال ہے،  کیا قدرت فطرت  کا بے مقصد نتیجہ ہے یا لا محدود  وجہ کے مالک سے پیدا ہوئی ہے؟  انسانی علم سے پرے، یہ راز، اگرمنطق سے نہیں، تو انکی وضاحت ان  غیر منقولہ قوانین کی ذریعے کی جا سکتی ہے جو تخلیق کے مقاصد کو یکساں کرتی ہے۔

”آپ نے سچ کہا ہے استادمحترم،”شاگرد نے جواب دیا“۔  یہ واضح ہے کہ خالق عظیم الشان ذہانت کا مالک ہے۔ میں اس کیقدرت  پر شک نہیں کرتا۔ اس کے باوجود میں یہسمجھ نہیں آرہیکہ خدا تعالی کو میری عبادات  کی ضرورت کیوں ہو گی۔“

تم غلط ہو ارسطو! اگر کوئی تمہارا خیرخواہ ہو  تو تم اسکے شکرگزار ہوتے ہو۔کیا ایسی سادہ سی حقیقت آپ کو سمجھانی چاہئے؟‘

”لیکن میں نہیں جانتا کہ اسے میری کوئی پرواہ ہے یا نہیں،“ارسطو نے کہا۔

”پھر خود کو اور جانوروں کو دیکھو۔ کیا ہم چیزوں کو ایک ہی طرح پرکھتے ہیں؟ انسان اپنے ماضی،حال اور مستقبل کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک جانور کے پاس ماضی اور حال کا مبہم سا خیال  ہوتا ہیلیکنوہ کل کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔انسان اور حیوان کی ظاہری شکل کا موازنہ کرو۔انسان اپنے  دو پیروں پر سیدھا کھڑا ہوتا ہے تاکہ  بہتر طریقیسے اپنے اردگرد دیکھ سکے۔  وہ کسی بھی جانور کو اپنی مرضی سے اپنا محکوم بنا سکتا ہے۔ تاہم جانور صرف اپنے اعضاء اور پروں پر انحصار کرتے ہیں، وہ کسی کو بھی محکوم بنانے سے قاصر ہیں۔اگر خدا نے انسان کو جانوروں کی طرح بے بس بنایا ہوتا  تو یہ کسی کام کا نہ ہوتا۔ انسان کو زمین پر تمام جانداروں کا مالک بنایا گیا ہے۔اگر جانوروں کے پاس انسانی ذہانت ہوتی بھی تو انکی ظاہری شکل مشکل سے ہی مشابہت رکھتی  یا پھر انکو   تقریر اور اقدار  کی تعلیم دی جاسکتی۔  سوچو،  کیا کوئی بیل بستی بنا سکتا ہے، اوزار بنا سکتا ہے اور ایک ہنر مند کاریگر بن سکتا ہے؟  حقیقت یہ ہے کہ خدا نے انسان کو اعلی ذہانت سے نوازا ہے،  اور اسکی روحانی طاقت اور اخلاقی خوبصورتی کو ایک کامل سانچے میں ڈالا ہے،  اور اس اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا نے انسان کوبہت محبت سے بنایا ہے۔

 ان تمام چیزوں پر غور کرنے کے بعد،کیا انسان خدا کی عبادت کا پابند نہیں ہے؟

اس طرح استاد محترم نے اپنیبات ختم کی۔

 

اٹھائیسواں لفظ

ایکسچے مقصد  کو آزمائش سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

الفاظ کی کتاب سے ا قتباس

ابائی کنان باوٗ

 

مسلمان!دنیامیں امیر اور غریب، صحتمند اور بیمار، عقلمند اور بیوقوف اچھے اور ظالملوگ آباد ہیں۔اگر کوئی پوچھے کہ ایسا کیوں ہے تو آپ جواب دیں گے:”یہ تواللہ کی مرضی ہے۔“

تاہم،بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ اللہ ایک حقیر لوفر کو دولت عطا کرتا ہے، جبکہ کچھ شحص جو خدا کی عبادت کرتا ہے اور ایماندارہوتا ہے وہ مشکل سے جیتا ہے اور بمشکل اپنی بیوی اور بچوں کا پیٹ پال سکتا ہے۔ ایک خاموش، بے ضرر آدمی اکثر بیمار اور کمزور رہتا ہے،جبکہ کچھ بدمعاش اور چور بہترین صحت سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ایک ہی والدین کا ایک ہوشیار اور ایک بیوقوف بیٹا ہو سکتا ہے۔اللہ ہر ایک کو دنیک آدمی بننے اور راستباز زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔وہ نیک لوگوں کو سیدھے راستے پر چلاتا ہے، اور گنہگاروں کوغلط راستے پر،  نیک لوگوں کو جنت کی خوشی ہے اور گنہگاروں کیلئے جہنم کے عزاب۔کیا یہ خدائی رحمت اور انصاف کے منافی نہیں ہے؟دونوں، انسان اور اسکے اعمال اللہ کے ہیں۔  اور اپنی املاک کو جس طرح چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔

اس کے عمل کو کیسے سمجھاجائے؟

یہ سمجھنا کہ خالق بے عیب ہے جبکہ خامیوں اور غلطیوں کو اسکی نسبت سے بیان کرتے ہوئے،  اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے ڈرسے خاموش رہتے ہیں۔

یہ عطا کرنے کے لئے کہ خالق عیب ہے،جبکہ اس کی غلطیوں اور غلطیوں کو قرار دیتے ہوئے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔

 اگر ایسا ہوتا تو اس ساری محنت اور کوششوں سے انسان کو کیا فائدہ ہوتا؟ اگر سب کچھ خالق کی مرضی سے ہوتا ہے تو لوگوں کاتو پھر کوئی قصو ر نہیں۔ بھلائی کر رہے ہوں یا برائی،  کیا وہ خدا کی مرضی کو پورا نہیں کر رہے ہیں؟”کیا جو ہمیں عطا کیا گیا ہے کسی اچھے مقصد کیلئے نہیں؟ایک عقلمند آدمی کو معلوم ہونا چاہئے کہ نیک کام کرنا مومن کا فرض ہے۔ایک سچے مقصد کو آزمائش سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اگر عقل کی بنیاد پہ آزادی نہیں دی گئی تو پھر اس حقیقت کا کیا ہوگا:”جو شخص استدلال رکھتا ہے وہ مجھے جان لے۔“

اگر ہمارے مذہب میں کوئی خامی ہے تو پھر کسی معقول مخلو ق کو اس کے بارے میں سوچنے سے کیوں منع کیا؟اگر وجہ نہ ہوتی تو مذہبکس چیزکا سہارا لیتا؟ ایمان کے بغیر اچھے کام، کیا اسکا کوئی فائدہ ہے؟ آپ کو سمجھنا اور یقین کرنا چاہئے کہ بھلائی اور برائی خدا نے پیدا کی ہے، لیکن وہ ان کو انجام دینے والا نہیں ہے۔خدا نے امیری اور غربت بنائی ہے، لیکن وہ انسانوں کو دولت مند یا غریب نہیں بناتا ہے۔  خدا نے بیماریاں پیدا کیں۔ لیکن وہ لوگوں کو ان سے دوچارکرنے والا نہیں ہے۔ بصورت دیگر سب کچھ خاک اور راکھ ہو گا۔

 

انتیسواں لفظ

کچھ قزق اقوال قابل زکر ہیں جبکہ کچھ نہ تو خدا اور نہ ہی انسان کے معیار پر پورے اترتے۔

قازق کا کہنا ہے کہ:”اگر آپ محتاج رہتے ہیں تو  شرم کو بھول جائیں۔“ لعنت ہو ایسی بے شرم زندگی پہ!لیکن اگر یہ محاورہ کسی کو محنت کرنے سے روکتا ہے، چاہے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، اس سے زیادہ کوئی شرمناک بات نہیں ہوسکتی۔ ایک نیک آدمی کو اپنی روزی ایمانداری سے کمانا چاہئے،بھکاری بن کے نہیں جینا چاہیئیاورکاہل بن کے بھی نہیں بیٹھنا چاہیئے۔ 

”ایک ہوشیارآدمیبرف کو بھی آگ لگا سکتا ہے“،”آپ کچھ بھی حاصل کرسکتے ہیں اگر آپ جانتے ہوں کہ پوچھنا کس طرح ہے۔“ خدا نے ان الفاظ کی مذمت کی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اپنے پسینے سے زمین سے دولت حاصل کریں بجائے اسکے کہ مکاری سے اور  دوسرے آدمی کے دسترخوان سے اپنے لیے بھیک مانگیں۔

اگر آپ مشہور نہیں تو اپنی زمین کو آگ لگادیں۔لیکن آپ کو بدنامی کی کیا ضرورت ہے؟

سو دن جیلڈنگ سے ایک دن تیز گھوڑا بننا بہتر ہے۔ لیکن صرف ایک دن کے پاگل پن کا کیا فائدہ جو اپکے جسم کو تھکا دے۔ یہاں تک کہ ایک فرشتہ بھی سونا دیکھ  کے راستے سے بھٹک جائے گا۔“  ایک فرشتہ کو سونے کی کیا ضرورت ہے؟  ایسی باتیں کر کے لوگ صرف اپنی مادیت پسندی کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

”خزانے  ماں باپ سے زیادہ عزیز ہے،لیکن اپنی زندگی سونے کے محل سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔“اب ایسے بندے کی زندگی کی کیا قیمت رکھی جائے جو اپنے والدین سے زیادہ خزانے کو اہمیت دیتا ہے۔ ایک بے غیرت اوربے منطق آدمی ہی اپنے ماں باپ کو سونے کیلئے بیچ سکتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی بھلائی کے لئے امیر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو  اپنے والدین کو خزانہ سے مساوی کرتا ہے وہ بے دین کام کرتا ہے۔

کسی کوبھی تعصب اور بے فکری سے پیدا ہونے والی کہاوتوں کو دہرانے سے محتاط رہنا چاہئے۔ “